گورنر کشمیر کی تبدیلی

   

Ferty9 Clinic

جنوں تبدیلی موسم کا تقریروں کی حد تک ہے
یہاں جو کچھ نظر آتا ہے تصویروں کی حد تک ہے
گورنر کشمیر کی تبدیلی
کشمیر میں جہاں ایک طرف حق کے نام پر ناحق کا دور دورہ ہے وہاں دوسری طرف دستوری اختیارات میں اتھل پتھل مچا کر مرکز نے اپنے مائنڈ سیٹ کے ذریعہ کشمیریوں کو استحصال کا شکار بنارہا ہے۔ کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے مرکزی زیرانتظام علاقہ کے تحت لداخ کیلئے نیا گورنر مقرر کیا گیا۔ جموں و کشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک کو گوا بھیج دیا گیا۔ ان کی جگہ وزیراعظم نریندر مودی کے دست راست یا اعتماد سمجھے جانے والے بیورو کریٹ گریش چندر امرمو کو گورنر بنایا گیا۔ کشمیر کو حاصل آرٹیکل 370 کے خصوصی موقف کو برخاست کرنے کے تقریباً 3 ماہ بعد اس ریاست کو دو حصوں میں کرکے انہیں مرکزی زیرانتظام علاقے بنایا گیا۔ جموں و کشمیر اور لداخ 31 اکٹوبر سے مرکز کی نگرانی میں ہیں۔ ستیہ پال ملک کو گذشتہ سال اگست میں ہی غیرمنقسم جموں و کشمیر کا گورنر بنایا گیا تھا۔ ستیہ پال ملک پہلے سیاسی فرد تھے جو گذشتہ کئی دہوں میں جموں و کشمیر کے گورنر بنائے گئے تھے لیکن انہوں نے اپنے بیانات کے ذریعہ کئی تنازعات کو جنم دیا تھا۔ اب کشمیر میں وزیراعظم مودی کے بااعتماد شخص کو ذمہ داری دی گئی۔ 1985ء بیاچ کے انڈین ایڈمنسٹریٹیو سرویس آفیسر مرمو 2010ء اور 2014ء کے درمیان چیف منسٹر گجرات کی حیثیت سے نریندر مودی کے دور میں ایڈیشنل پرنسپل سکریٹری تھے۔ 2015ء میں مرکزی حکومت نے انہیں وزارت فینانس میں جوائنٹ سکریٹری بنایا تھا اور اس سال مئی میں وہ اکسپنڈیچر سکریٹری (معتمد مصارف) مقرر ہوئے تھے۔ جموں و کشمیر کی صورتحال کی روشنی میں یہ سمجھا جاسکتا ہیکہ مرکز نے کیا تیاری کی ہے۔ گریش چندر مرمو کو وزیراعظم مودی کے قریبی آدمی کے طور پر جانا جاتا ہے انہیں راج بھون میں تنظیمی صلاحیتوں کا کافی تجربہ ہے۔ اب جبکہ کشمیر کو مرکزی زیرانتظام علاقہ بنایا گیا ہے تو یہاں کا سارا کنٹرول مرکز کے ہاتھ میں ہوگا۔ جموں و کشمیر میں اس طرح کی حالیہ بڑی تبدیلیوں نے مرکز کی مودی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر تنقیدوں کا شکار بنادیا ہے۔ ایشیاء پر امریکی ایوان سب کمیٹی نے ایشیاء میں انسانی حقوق پر تاریخی سماعت کی تھی۔ اس سماعت میں کئی علاقوں میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر غوروخوض کیا گیا لیکن کشمیر میں جاری کارروائیوں پر پہلی مرتبہ خاص توجہ دی گئی۔ امریکی کانگریس میں کشمیر کے مسئلہ پر توجہ دینے کے بعد عالمی سطح پر جس طرح کی رائے سامنے آئی ہے وہ ہندوستان کی موجودہ حکومت کیلئے ٹھیک نہیں تھی۔ 50 سال کی تاریخ میں اقوام متحدہ سیکوریٹی کونسل نے بھی پہلی مرتبہ گذشتہ ماہ کشمیر پر بحث کرے گا۔ سیشن منعقد کرکے کشمیر پر امریکہ کے موقف کا جائزہ لیا تھا۔ امریکہ میں منتخب درجنوں قائدین نے اس ریاست میں جاری انسانی حقوق کے بحران پر تشویش ظاہر کی تھی۔ یہ تبدیلیاں مرکز کی مودی حکومت کیلئے تیر کی طرح پیوست ہورہی ہیں۔ اس لئے مودی حکومت نے فی الفور کشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک کو تبدیل کرکے اپنے بھروسہ مند بیوروکریٹ کو لیفٹننٹ گورنر بنایا ہے۔ اگر یہ تبدیلی وادی کشمیر میں عوام کی عام زندگی کو بحال کرتے ہوئے کھلی فضاء میں سانس لینے میں معاون ہوتی ہے تو رفتہ رفتہ بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔ مسئلہ کشمیر کی یکسوئی کیلئے کسی بھی تیسرے فریق کی ثالثی کے امکان کو مسترد کردیئے جانے کے بعد اس مسئلہ کی حساسیت اور سنگینی کو دیکھتے ہوئے صدر امریکہ ٹرمپ نے دوبارہ ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ کشمیریوں پر گذرنے والی کیفیت کو محسوس کرنا اور اس ریاست کے حوالہ سے مرکزی حکومت کو درپیش سیاسی چیلنجس کا جائزہ لیتے ہوئے جو صورت نمودار ہوگی اس کے مطابق بہتر اقدامات کی جانب پیشرفت کی جائے تو یہ خوش آئند بات ہوگی۔ گورنر کی تبدیلی سے اگر حالات بہتر بنائے جاسکتے ہیں تو یہاں مسئلہ کا سیاسی حل تلاش کرنے کی بھی راہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔
ہندوستان کو تجارتی سہولتوں میں برتری
مرکز کی نریندر مودی زیرقیادت حکومت کی ’’میک ان انڈیا‘‘ پالیسی اور غیرملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کیلئے اصلاحات کے مثبت نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ حال ہی میں عالمی بینک نے تجارت میں سہولیات سے متعلق رینکنگ جاری کیا ہے جس میں ہندوستان کو 14 پائیدان کی لمبی چھلانگ لگاتے ہوئے بتایا گیا ہے۔ عالمی بینک کے ریزو آف ڈونگ بزنس رپورٹ 2020ء میں 190 معاشی ملکوں کی فہرست میں ہندوستان کو 63 ویں مقام پر پہنچایا ہے۔ اس سروے کے نتائج دراصل دو تجارتی مراکز دہلی اور ممبئی سے اخذ کردہ ہیں۔ یہ سروے تقریباً عالمی سطح پر نمایاں ہونے والی معاشی تصویر کا آئینہ ہے۔ 2015ء میں معاشی و تجارتی سطح پر ہندوستان کا مقام 130 واں تھا لیکن تازہ رینک میں ہندوستان نے بڑی چھلانگ لگائی ہے۔ اس بہتری کی وجہ بڑی کمپنیوں کو برقی کے حصول میں آسانی اور قرض کی فراہمی جیسے چار شعبوں میں مثبت اقدامات کئے جانے سے ہندوستان کو عالمی سطح پر 22 ویں مقام پر پہنچایا جاسکتا ہے۔ ہندوستان کے اقتصادی اصلاحات کی ستائش کرتے ہوئے عالمی بینک کی رپورٹ میں جن نکات کی نشاندہی کی ہے وہ کافی اہم بات ہے لیکن اس حقیقت کے باوجود ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جانب سے سرمایہ کاری کی جو توقع کی جارہی تھی وہ پوری نہیں ہوسکی۔ امریکہ کیساتھ چین کی تجارتی جنگ کے درمیان امکان غالب تھا کہ عالمی سطح پر بڑی کمپنیاں ہندوستان میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیں گی مگر ایسا نہیں ہوا ہے۔ ہندوستان کی بینکنگ میں بہتری کی بات خوش آئند ہے مگر اس کے ساتھ بڑی تجارتی کمپنیوں کی جانب سے سرمایہ کاری کو یقینی بنانے پر توجہ دی جانی چاہئے۔ اقتصادیات کی صرف خوشنما تصویر دکھائی جائے تو اصل خرابی پوشیدہ ہی رہے گی۔