لکھنو۔ ماہر اطفال ڈاکٹر کفیل حان جس کانام 2017میں بی آر ڈی میڈیکل جالج سانحہ کے بعد منظرعام پرآیاتھا جس میں آکسیجن کی قلت کے سبب متعدد معصوم بچو ں کی جان چلی گئی تھی‘ نے منگل کے روز کہاکہ کوئی بھی سیاسی پارٹی ان کی مدد کرتی ہے تو وہ اترپردیش چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ کے خلاف گورکھپور سے مقابلہ کرنے کو تیار ہیں۔
پچھلے سال 9 نومبر کے روز ڈاکٹر خان کو ان کے خدمات سے برطرف کردیاگیاتھا اور انہوں نے حکومت کے اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیالنج کیاہے۔
پی ٹی ائی سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر خان نے کہاکہ ”گورکھپور سے میں یوگی ادتیہ ناتھ کے خلاف اسمبلی الیکشن میں مقابلہ کرسکتاہوں۔ اگر کوئی پارٹی مجھ ٹکٹ دیتی ہے تو میں تیارہوں“۔
جب ان سے پوچھا گیاکہ وہ کسی سیاسی جماعت سے رابطہ میں ہے یاکوئی ان سے رجوع ہوئے ہیں تو”انہوں نے کہاکہ جی ہاں‘ بات چیت جاری ہے۔ اگر سب معمول کے مطابق رہاتو میں انتخابات میں مقابلہ کررہاہوں“۔
گورکھپور میں 3مارچ کو چھٹے مرحلے میں رائے دہی مقرر ہے۔ خان نے کہاکہ بی جے پی آرڈی میڈیکل کالج میں اگست2017میں پیش ائے سانحہ میں انہیں بلی کابکرا بنایاگیاہے جس میں 80خاندانوں کے بچے مارے گئے ہیں۔
خان نے الزام لگایاکہ گورکھپور میں ان کی عدم موجودگی کے جانکاری کے باوجود ان کے 70سالہ والدہ کو پولیس کی جانب سے ہراساں کیاگیاہے‘ جب وہ گھر میرے متعلق جانکاری حاصل کرنے کے لئے پہنچے۔
انہوں نے کہاکہ ”میں سوشیل میڈیا پلیٹ فارمس جیسے فیس بک‘ ٹوئٹر وغیرہ پر سرگرم ہوں‘ اوربتارہاہوں کہ میں کہاں پر ہوں۔ فی الحال میں ممبئی میں ہوں۔
اس کے بعد میں حیدرآباد او ربنگلور اپنی کتاب کے پروموشن کے لئے جارہاہوں جس کا عنوان ’دی گورکھپور اسپتال ٹریجٹی۔
ایک ڈاکٹرس میموائر آف اے ڈیڈلی میڈیکل کرائسیس“ جس بہتر فروخت ہونے والی کتاب بنی ہے جس کے 5000کاپیاں فروخت ہوئی ہیں“۔
انہوں نے کہاکہ ”میری کتاب کی 17ڈسمبر2021کو لانچ کے بعد پولیس میرے گھر 20ڈسمبر کوپہنچی اور پھر28ڈسمبراور دوبارہ جنوری میں میرے گھر ائے ہیں۔
پولیس کہہ رہی ہے کہ میں گورکھپور کے راج گھاٹ پولیس اسٹیشن کا ہسٹری شیٹر ہوں اور انتخابات کی وجہہ سے اس طرح کی تصدیق کا سلسلہ ہنوز جاری ہے“۔
کفیل نے کہاکہ ”اگر انہیں تصدیق کرنی ہے تو میرے مقام پر ایک پولیس جوان کو بھیجے۔ میرے پاس تصویریں ہیں کہ بڑی تعداد میں پولیس والے میرے مقام پر پہنچے ہیں اور باہر کھڑے ہوکر انہوں نے تصویریں لیں تاکہ ’کسی کو دیکھائیں‘کے وہ اپنا کام کررہے ہیں“۔
کفیل کی والدہ گورکھپور کے بسنت پور علاقے میں ان کے بھائی عدیل خان کی فیملی کے ساتھ رہتے ہیں۔ اپنی کتاب کے متعلق کفیل نے کہاکہ یہ 10اگست2017کی رات میں پیش آنے والے واقعات کے متعلق ہے جس میں ریاست کی نگرانی میں چلائے جانے والے بابا راگھو داس میڈیکل کالج نہرو اسپتال گورکھپور میں آکسیجن ختم ہوجانے پر اور اگلے دو دنوں میں 8مریض63بچے اور 18جوانوں نے اپنی جان گنوادی تھی۔
انہوں نے کہاکہ اس سانجہ کی خبر قومی توجہہ کا سبب بنی انہیں ’ہیرو‘ پکارا جانے لگا‘ جو ان کے بحران پر قابو پانے کی کوشش کے حوالے سے تھااور طبی نظام میں درکار اصلاحات کو چوکناکیاتھا۔
مگر کچھ دنوں میں نو لوگوں کے خلاف بشمول میرے ایک ایف ائی آر بدعنوانی اور طبی غفلت کے لئے درج کی گئی اوردیگر سنگین دفعات بھی لگائے گئے او رجیل بھیج دیاگیاتھا۔
ڈاکٹر کفیل کی گرفتاری جنوری 2020میں عمل میں ائی اور ان پر این ایس اے کے سنگین فعات کے تحت مقدمہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ان کی مبینہ اشتعال انگیز تقریر کی وجہہ سے عائد کیاگیاتھااور این ایس اے کے دفعات آلہ ابا د ہائی کورٹ کی جانبسے ہٹائے جانے سے قبل پانچ ماہ انہوں نے جیل میں گذارے ہیں۔