گھروں پر ہتھیار رکھنے کا مشورہ

   

کس شہر احتیاط میں لے آئی زندگی
اک دوسرے کا حال کسی پر عیاں نہ تھا

ہندوستان میں قانون کی حکمرانی اور بالادستی ہے ۔ ملک کا قانون عوام کو اپنے پاس یا گھروںمیں ہتھیار رکھنے سے منع کرتا ہے ۔ ہتھیار رکھنے کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے ۔ نفاذ قانون کی ایجنسیوں کی جانب سے ہتھیار رکھنے والوں کے خلاف کارروائیاں کی جاتی ہیں اور انہیں عدالتوں سے سزائیں بھی دلائی جاتی ہیں۔ نفاذ قانون کی ایجنسیوں کے ذمہ دار ہوں یا پھر پارلیمنٹ یا اسمبلی میں قانون بنانے والے ارکان ہوں سبھی عوام کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ قانون سے کھلواڑ نہ کریں۔ ہتھیار نہ رکھیں اور نہ ہی ان کا استعمال کیا جائے ۔ تاہم بی جے پی کی حکومت میں ملک میں قانون صرف کمزوروں اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر رہ گیا ہے اور خود بی جے پی یا اس کے حامیوں کیلئے قانون نام کی کوئی شئے نہیں رہ گئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی کے مقامی قائدین سے لے کر پارلیمنٹ کے ارکان تک بھی قانون کی دھجیاں اڑانے والے بیان دے رہے ہیں۔ کوئی مسلمانوں کی نسل کشی کی بات کرتا ہے تو کوئی مسلمانوں کو ملک سے نکال باہر کرنے کی بات کرتاہے ۔ کوئی مسلمانوں کے حق رائے دہی کو ختم کرنے کی وکالت کرتا ہے تو کوئی ان کو سرکاری نوکریاںدینے کی مخالفت کرتا ہے ۔ اب بی جے پی کی رکن پارلیمنٹ پرگیہ سنگھ ٹھاکر نے تو حد ہی کردی اور ہندووں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے گھروں میں ہتھیار رکھیں۔ کم از کم چاقو ضرور رکھیں ۔ یہ در اصل ہندو برادری کو اکسانے اور انہیں قانون کی خلاف ورزی کیلئے تیار رہنے کی ہدایت ہے ۔ یہ در اصل ملک کے قانون اور دستور کی خلاف ورزی ہے جس پر انہوں نے حلف لیا تھا ۔ خود پرگیہ سنگھ ٹھاکر کے خلاف بم دھماکوںاور دہشت گردی کے الزامات ہیں۔ اس کے باوجود بی جے پی نے انہیں ٹکٹ دے کر بھوپال سے رکن پارلیمنٹ بنادیا ۔ پرگیہ سنگھ اپنی روش کو بدلنے تیار نہیں ہیں اور جہاںوہ خود مقدمات کا سامنا کر رہی ہیں وہیں انہوں نے ہندو برادری کو اکسانے اور بھڑکانے کی کوشش کی ہے اور انہیں گھروں میں ہتھیار رکھنے کا مشورہ دیا ہے ۔ یہ ملک کے قانون کی نہ صرف کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ قانون کا مذاق بنانے اورکھلواڑ کرنے کی کوشش ہے ۔
بی جے پی کے قائدین یا اس سے تعلق رکھنے والی تنظیموں کے نمائندے ہر طرح کی اشتعال انگیزیوں میںمصروف ہیں۔ وہ طرح طرح کے بیانات دیتے ہوئے قانون کا مذاق بنانے سے بھی گریز نہیں کر رہے ہیں۔ قانونی اور دستوری ذمہ داری کو نظر انداز کرتے ہوئے زہر افشانی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ نت نئے انداز سے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اس کے باوجود حکومت یا نفاذ قانون کی ایجنسیاں ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ نفاذ قانون کی ایجنسیاں بھی حکومت کے اشاروں پر یا پھر سیاسی سرپرستی میں کام کرنے لگی ہیں اور انہیں اپنے فرائض منصبی یاد نہیں ہیں یا پھر وہ ان فرائض سے عمدا پہلو تہی کر رہی ہیں۔ اس طرح کی روش سے نفاذ قانون کی ایجنسیوں پر بھی شبہات پیدا ہونے لگے ہیں۔ ان کا کردار مشکوک ہو رہا ہے اور انہیں ایک سے زائد موقع پر عدالتوں سے سرزنش اور پھٹکار بھی برداشت کرنی پڑی ہے ۔ اس کے باوجود نفاذ قانون کی ایجنسیاں کوئی کارروائی کرنے تیار نہیں ہیں۔ اس طرح کی بیان بازی اگر کسی اقلیتی نمائندہ کی جانب سے کی جاتی تو پھر اس کے خلاف سینکڑوں مقدمات درج ہوجاتے ۔ گرفتاری ہوجاتی ۔ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا جاتا ۔ اسمبلی ہو یا پارلیمنٹ ہو اس کی رکنیت ختم کردی جاتی اور سارے زر خرید میڈیا کے تلوے چاٹنے والے اینکرس کی چیخ و پکار بھی شروع ہو جاتی ۔ تاہم پرگیہ ٹھاکر کے مسئلہ پر سبھی نے خاموشی اختیار کرلی ہے ۔
قانون کے نفاذ میں دوہرے معیارات خطرناک ہوتے ہیں۔قانون سب کیلئے برابر اور مساوی ہونا چاہئے ۔ سبھی کو قانون کے مطابق اختیارات اور حقوق ملنے چاہئیں اور سبھی کو قانون کی خلاف ورزی اور اس سے کھلواڑ پر سزائیں بھی ملنی چاہئیں۔ کسی کے عہدہ یا رتبہ کا پاس و لحاظ کئے بغیر قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا نفاذ قانون کی ایجنسیوں کی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کی ادائیگی میں یہ ایجنسیاں عمدا ناکام ہو رہی ہیں۔ ان ایجنسیوں کو چاہئے کہ وہ اپنی سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر قانون کی بالادستی اور برتری کو یقینی بنانے کیلئے کام کریں ۔ اسی طرح سے ان کی کارکردگی پر عوام کا اعتماد بحال کیا جاسکتا ہے ۔