دین اسلام اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے، اس میں اطمینان قلب، ذہنی سکون، روحانی تسکین اور قلبی راحت ہے۔ اسلام، مؤمن کے دل و دماغ کو پاکیزہ و معطر کردیتا ہے اور اس کی تعلیمات قلب و ذہن کو پرسکون و مطمئن بنادیتی ہیں۔ دین اسلام کی آغوش میں آنے کے بعد انسان اپنے ہر معاملے کو اللہ تعالی کے تفویض کردیتا ہے اور اس کی رضا و خوشنودی کے لئے صبروتحمل، ایثار و قربانی اور حسن سلوک کو اپناتا ہے اور اس میں عفو و درگزر کا ملکہ خود بخود پروان چڑھنے لگتا ہے اور کفر و معصیت انسان کے دل کو زنگ آلود اور ذہن و فکر کو آلودہ کردیتے ہیں، جس کی وجہ سے فخر و غرور، اظہار برتری، جذبہ انتقام جیسی قلبی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں، جس کے سبب رنجشیں، اختلافات اور نزاعات فروغ پاتے ہیں اور مصالحت کی کوششیں رائیگاں ہو جاتی ہیں۔
افسوس کہ آج مسلم معاشرہ ذہنی یکسوئی اور قلبی سرور و راحت سے محروم ہے۔ میاں بیوی کے درمیان ناچاقی، ماں باپ کی نافرمانی، اولاد کی ایذا رسانی، بھائی بھائی میں اختلاف، سسرال والوں سے ناراضگی، بہو کے ساتھ زیادتی اور حقارت آمیز سلوک اور کاروباری شراکت میں نااتفاقی عام بات ہو گئی ہے۔ چھوٹی چھوٹی لایعنی اور ناقابل التفات باتوں کو نظرانداز کرنے کی بجائے غیر ضروری اہمیت دینے کے سبب قابل حل مسائل بھی پیچیدہ ہو رہے ہیں۔ نوبت طلاق و خلع، علحدگی، قطع تعلق، گالی گلوج، مارپیٹ، کورٹ کچہری بلکہ قتل و خون تک پہنچ رہی ہے۔ گھر کے ذمہ دار افراد کا غیر ذمہ دارانہ رویہ گھر کی تباہی میں منفی رول ادا کر رہا ہے۔ ملت کے سنجیدہ افراد معاملہ فہمی سے محروم اور یکسوئی و مفاہمت کرانے میں ناکام ہیں۔
دو مسلمان بھائیوں میں صلح کرانا، صلح صفائی کی کوشش کرنا ایمان کا جز ہے۔ پیغمبران کرام کی سنت، عظیم ترین اطاعت اور افضل ترین صدقہ ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’ان کی اکثر سرگوشیوں میں کوئی بھلائی نہیں، سوائے اس شخص کے جو کسی کار خیر یا نیک کام یا لوگوں میں صلح کرانے کا حکم دیتا ہے اور جو کوئی یہ کام اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے کرے تو ہم اس کو عنقریب اجر عظیم عطا کریں گے‘‘۔ (سورۃ النساء۔۱۱۴)
صلح صفائی، مفاہمت اور مصالحت سے ذہنی یکسوئی حاصل ہوتی ہے۔ صلح نفرت و عداوت کو ٹھنڈا کرتی ہے، اس سے محبت کی فضاء قائم ہوتی ہے، امن و سلامتی میسر آتی ہے، کار خیر میں دل لگتا ہے، تعمیری کام ہوتے ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے مابین اصلاح اور صلح صفائی کا حکم فرمایا ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: ’’وہ آپ سے اموال غنیمت کے بارے میں سوال کرتے ہیں، فرمادیجئے! اموال غنیمت کے مالک اللہ اور رسول ہیں، سو تم اللہ سے ڈرو اور اپنے باہمی معاملات کو درست رکھا کرو (صلح و صفائی کرلیا کرو) اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کیا کرو اگر تم ایمان والے ہو‘‘۔ (سورۃ الانفال۔۱)
سورۃ البقرہ کی آیت ۲۲۴ میں ارشاد ہے: ’’اور اپنی قسموں کے باعث اللہ (کے نام) لو (لوگوں کے ساتھ) نیکی کرنے اور پرہیزگاری اختیار کرنے اور لوگوں میں صلح کرانے میں آڑ مت بناؤ اور اللہ خوب سننے والا، بڑا جاننے والا ہے‘‘۔
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اہل قباء باہم برسر پیکار ہو گئے اور ایک دوسرے پر تیزبازی کرنے لگے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی گئی۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’ہمیں لے چلو، تاکہ ان میں اصلاح کریں‘‘۔ (بخاری)
حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا میں تمھیں روزوں، نماز اور صدقہ سے افضل چیز کی خبر نہ دوں؟‘‘۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: ’’کیوں نہیں یارسول اللہ!‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’آپسی معاملات کو درست رکھو (اصلاح اور صلح صفائی کرو) یقیناً آپسی معاملات کا بگاڑ و فساد ہی دین کو ختم کرنے والا ہے‘‘۔ (الترغیب۔۲۸۱۴)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’افضل ترین صدقہ باہمی معاملات کو درست کرنا ہے‘‘۔ (الترغیب۔۲۸۱۷)
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوایوب سے فرمایا: ’’کیا میں تمھیں ایک تجارت کی رہبری نہ کروں؟‘‘۔ انھوں نے عرض کیا: ’’کیوں نہیں!‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’لوگوں کو ملاؤ جب ان میں فساد ہو جائے اور ان کو نزدیک کرو جب وہ ایک دوسرے سے دور ہو جائیں‘‘۔ (الترغیب۔۲۸۱۸)
حضرت ابوایوب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ’’کیا میں تمھیں ایسے صدقہ کی رہبری نہ کروں، جو اللہ اور اس کے رسول کو محبوب ہے؟۔ تم لوگوں کے درمیان اصلاح کرو، جب وہ ایک دوسرے سے نفرت کریں اور ان میں فساد ہو جائے‘‘۔ (الترغیب۔۲۸۲۰)
امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’اللہ عزوجل کے نزدیک صلح صفائی کے لئے اٹھنے والے قدم سے بڑھ کر کوئی قدم محبوب و پسندیدہ نہیں ہے‘‘۔ دو مسلمان بھائیوں یا دو گھرانوں یا دو گروپوں میں کسی مسئلہ پر اختلاف ہو جائے تو ان میں صلح صفائی اور یکسوئی پیدا کرنا دیگر بھائیوں کا فریضہ ہے۔ ارشاد ہے: ’’بلاشبہ مؤمنین بھائی بھائی ہیں، پس تم دو بھائیوں کے درمیان اصلاح کرو اور اللہ سے ڈرو، یقیناً تم پر رحم کیا جائے گا‘‘۔ (الحجرات۔۱۵)
ممکن ہے کہ اختلاف کے بعد دو فریق بظاہر اپنے اپنے مقاصد کی بہتر انداز میں تکمیل کی امید رکھتے ہوں، لیکن قرآن واضح طورپر صلح کی ترغیب دیتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ ’’صلح بہتر ہے ، خیر ہی خیر ہے‘‘۔ (النساء۔۱۲۸)
واضح رہے کہ مسلمانوں میں پیار و محبت پیدا کرنا، باہم ایک دوسرے کے احترام و تعظیم کی تعلیم دینا، ان کے باہمی معاملات کو استوار کرنا اور نزاعات و اختلافات کی یکسوئی کرنا پیغمبران کرام کی سنت ہے، جب کہ ان میں اختلافات کو ہوا دینا، گروپوں میں تقسیم کرنا، حق اور سچ بات کو خوش اسلوبی سے ظاہر کرنے کی بجائے نفرت و عداوت کو ہوا دینا شیطانی عمل ہے۔ ایک آیت ہی اختلافات کو دور کرنے کے لئے کافی ہے۔ ارشاد الہی ہے: ’’اور اگر تم ان دونوں کے درمیان اختلاف کا اندیشہ کرو تو دونوں کے افراد خاندان میں سے ایک ایک ’’حکم، ثالث‘‘ کو بھیجو۔ اگر وہ دونوں اصلاح (مصالحت و صلح صفائی) چاہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے درمیان موافقت پیدا کردے گا۔ یقیناً اللہ تعالی خوب جاننے والا باخبر ہے‘‘۔ (سورۃ النساء۔۳۵)