گھر کی سجاوٹ میں عورت کا حصہ

   

گھر کا خیال آتے ہی ذہن میں کئی ایک چیزیں اُبھر کر سامنے آنے لگتی ہیں کہ اپنا گھر ایسا ہو، جس میں خوشیاں ہی خوشیاں ہوں، ہم ہو تم ہو اور … سارے… ہو۔ اس کے علاوہ پھر یہ بھی خیال آتا ہے کہ گھر خوب صورت ہو، اور پھر گھر والی بھی خوب صورت ہو۔ لیکن ان سب سے ہٹ کر گھر کی خوبصورتی گھر کی عورت ہوتی ہے۔ مشہور و معروف قول ہے گھر کی زینت عورت ہے اگر عورت سمجھدار ہو، باوفا، سلیقہ شعار ہو تو گھر یقینا خوشیوں کا سمندر ہوگا۔ جس سے تمام تر خوشیاںمیسر ہونے لگتی ہیں، اور پھر گھر کا ایک اہم کردار ’’مرد‘‘ بھی ہے اگر دونوں میں باہمی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہو، اتفاق ہو اور متحد الخیال ہو تو گھراور بھی سنور کر ایک بہترین مثالی ثابت ہوسکتا ہے۔ یعنی گھر جنت نما ہوسکتا ہے۔ ایک کہاوت اور بھی مشہور ہے۔ میاں اور بیوی گاڑی کے دو پہئے ہیں جن میں سے ایک بھی پہیہ خراب ہو جائے تو گھرکا سارا نظام درہم برہم ہو کرزندگی کے تمام حسین تر خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں اور زندگی مایوسی کی طرف رواں دواں ہو جاتی ہے اگر دونوں پہیوں کی رفتار معتدل ہوا یکسانیت پائی گی ہو تو پھر زندگی خوشیوں سے بھرپور لطف اندوز ہوسکتی ہے اگر وقتی طور پر کوئی ایک پہیہ پنکچر ہو جائے اُسے ٹھیک کرکے اس میں پائی گئی خرابی کا حل نکال کر اُسے درست کرلیا جائے تو پھرسے سلامت رو ی و خوش حالی کی طرف قدم بڑھا سکتے ہیں، اس سلسلے میں عورت کا بہت ہی اہم اور نمایاں کردار ہوتا ہے۔ ہر دو طرح سے گھر کو سنوارنے میںعورت ہی معقول رول نبھا سکتی ہے۔ اگر عورت میں سلیقہ شعاری بدرجہ اتم موجود ہو تو وہ گھر کی خوشیوں کے ساتھ گھر کو خوب سے خوب تر کی طرف لے جاسکتی ہے کیونکہ گھر اس کے مکینوں کی روشن دماغی اور پنہاں پوشیدہ صلاحیتوں کا معرف ہوتا ہے دُنیا کی کوئی بھی اِسی خاتون نہیں ہوگی جو کہ اپنے گھر کو سجانے کے لیے نہیں سونچتی ہوگی۔ تقریباً ہر خاتون کے خیالات میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ خواہ وہ مشرقی ہو یا پھر مغربی لیکن یہ دونوں سجانے کی فکر رکھتی ہیں مگر اپنے اپنے انداز و ماحول کے اعتبار سے خیالات کے اعتبار سے۔ بعض خواتین جو کہ اپنے اطراف و اکناف کے ماحول کا بغور جائزہ لیتی ہیں اور اس سے متاثر ہو کر خودبخود گھر کی سجاوٹ میں معروف ہو جاتی ہیں۔ اور بعض خواتین میں یہ ’’حس‘‘ بھی نمایاں طور پر رہتی ہے کہ اپنے طور سے اپنی فکر و انداز کے مطابق گھر کو سنوارنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتیں ٹیبل کرسی، خوب صورت گلدستہ اور اس میں رنگ بہ رنگی پھول، گھر کی کھڑکیاں اُس کیلئے اپنے انداز میں منتخب شدہ پردے اور اسی سے میاچنگ کرتے ہوئے گھر کے دروازوں کیلئے پردے اور پھر مختلف ڈیزائن سے مزین خوبصورت انداز کے غلاف، قالین، شطرنجیاں، پھول ڈالیاں وغیرہ وغیرہ کا استعمال کرکے گھر کی رونق میں اضافہ کردیتی ہیں۔ پڑھی لکھی خواتین جو تعلیم یافتہ ہوتی ہیں۔ اسکول، کالجز یا دیگر تعلیمی ادارؤں سے سیکھ کر اپنے گھر کی ترقی سجاوٹ کا ایک ایسا بہترین اور انوکھا خاکہ تیار کرلیتی ہیں جس کو بعد ازدہ بروئے کار لاکر گھر کی سجاوٹ میں مسلسل معروف رہتی ہیں۔ لیکن یہاں یہ بات نہایت افسوس کے سا تھ کہنا پڑتا کہ تعلیم یافتہ خواتین کا اگر یہ کچھ کر اپنے گھر رونق سجاوٹ بغور جائزہ لیا جائے بہ مشکل 20فیصد (20%) سے بھی کم نظر آئیں گی۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں ایسے کوئی قابلِ لحاظ اور قابل قدر اسکول یا ادارے نہیں ہیں جس میں باضابطہ تعلیم حاصل کرکے گھر کی سجاوٹ میں اپنا کردار ادا کرسکے۔ گھریلو آرائش کی تعلیم یا کوئی ادارہ نہیں ہونے کی وجہ سے گھر کی خوب صورتی مانند نظر آتی ہے آج جس انداز سے زمانہ اپنی کروٹیں بدل رہا ہے۔ جدید طرز و فکر کے رجحانات جس تیزی سے رواں دواں ہیں اس سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ آج کی روزمرہ زندگی میں گھر کی سجاوٹ لازمی چیریں ہوچکی ہے۔ اگر اس میں ذرہ برابر کوتاہی برتی جائے اور اس کی اہمیت کو کم کیا جائے اس سے سماجی زندگی میں بڑا فرق اور امتیاز پیدا ہو جائے گا، اور ہم اپنے آپ کو بہت بہت پُرانے یا غیر سلیقہ شمار سمجھے جائیں گیاور ایسی فیملی کو بہت سے طعنے اور بد سلیقہ کہیں گے۔ خواتین کو چاہیے کہ اپنے آپ کو کبھی بھی کسی بھی مقابلے میں کم تر یا پھر کمزور نہ سمجھیں بلکہ زمانے کے لحاظ سے چلنے اور اپنی پنہاں و پوشیدہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اپنا لوہا منوائیں اور گھر کی سجاوٹ و خو بصورتی میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑیں۔ اگر ہر عورت یہ سوچ کر گھر کو سنوارے کہ میری سجائی ہوئی چیزیں میرے اپنے ذوق و شوق کو پورا کررہی ہیں جس سے میں اور میرے گھر والے فرطِ مسرت میں غرق ہیں تو ایسا گھر یقینا محبت کی خوشبو سے بھی معطر رہے گا اور جب گھر کے لوگ محبت کی خوشبو سے مالا مال ہوں گے تو وہ گھر کی سجاوٹ میں بھی بھرپور کردار ادا کریں گے۔ اور ایسا گھر سارے افرادِ خاندان کیلئے پُرسکون ماحول پیدا کرے گا۔