ہائی کورٹ کی پھٹکار کے بعد وقف بورڈ کی تحلیل ناگزیر

   

اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کیلئے آئی اے ایس ، آئی پی ایس عہدیداروں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دینے حکومت سے سید نجیب علی ایڈوکیٹ کا مطالبہ

نظام آباد :جناب سید نجیب علی ایڈوکیٹ نے اپنے ایک صحافتی بیان میں ہائیکورٹ کی جانب سے اوقافی جائیدادوں کے تحفظ اور باز یابی میں ناکامی پر لگائی گئی پھٹکار کے بعد حکومت سے وقف بورڈ کو تحلیل کرتے ہوئے آئی اے ایس اور آئی پی ایس عہدیداروں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دینے کا مطالبہ کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ہائیکورٹ نے گذشتہ 3ماہ کے دوران 3 مرتبہ وقف بورڈ عملہ کی جانب سے جائیدادوں کی صیانت اور باز یابی کیلئے سنجیدہ اقدامات نہ کئے جانے پر شدید برہمی اور تشویش کا اظہار کیا اور چند دن قبل دئیے گئے فیصلہ میں چیف ایگزیکٹیو آفیسر کو فوری اثر کے ساتھ گھر بھیجنے کی ہدایت کے بعد یہ واضح ہوگیا ہے کہ حکومت اوقافی جائیدادوں کی صیانت کے مسئلہ کس قدر سنجیدہ ہے انہوں نے کہا کہ یہ ایک المیہ ہے کہ وقف بورڈ کے اعلیٰ عہدیداروں کو یہ علم نہیں ہے کہ کس طرح قابضین اور لینڈ گرابرس کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کے ساتھ ساتھ کریمنل کیس درج رجسٹرڈ کئے جاتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ وقف بورڈ میں سی ای او کے عہدہ کیلئے بہ اعتبار عہدہ ایڈیشنل کلکٹر رتبہ کے حامل عہدیدار کی تعیناتی کی ضرورت ہے لیکن گذشتہ کئی سال سے ان عہدوں پر ماتحت کے تحصیلدار رتبہ کے حامل عہدیداروں کو متین کیا جارہا ہے جو قواعد سے عملی طور پرناواقف ہے ۔ ستم ظریفی کی بات یہ بھی ہے کہ وقف بورڈ کے نا اہل ذمہ دار گذشتہ کئی سال سے اوقافی جائیدادوں کی تباہی اور لوٹ کھسوٹ میں شامل رہے ہیں انہوں نے کہا کہ گذشتہ 6 سال کے دوران حکومت نے کئی بار وقف بورڈ کو جوڈیشل پائور دینے کا تیقن دیا لیکن آج تک یہ وعدہ پورا نہیں کیا جاسکا ۔ اچانک 3 سال قبل 8؍ نومبر 2017 کو چیف منسٹر نے محکمہ مال اور پولیس عہدیداروں کے ساتھ وقف بورڈ کو مقفل کرنے اور تمام ریکارڈز کو تحویل میں لینے کے احکامات جاری کئے تھے اور اعلان کیا تھا کہ وہ وقف بورڈ کو اسمبلی کے خصوصی اجلاس کے ذریعہ ایک بل پاس کرتے ہوئے جوڈیشل پائورس دیں گے لیکن اب تک اس وعدہ کو پورا نہیں کیا جاسکا ۔ وقف بورڈ ایک نا اہل افراد کا ٹولہ ہے جنہیں اوقافی جائیدادوں کے تحفظ اور اس کی باز یابی سے کوئی سروکار نہیں ہے انہوں نے کہا کہ ریاست کی تقسیم کے بعد تلنگانہ کے اضلاع میں جملہ 77 ہزار ایکڑ اراضی کے اوقافی ہونے کی نشاندہی کی گئی جس کے منجملہ 44 ہزار ایکڑ اراضی قابضین کے تصرف میں ہونے اور فی الحال اوقافی ریکارڈ کے تحت 33 ہزار ایکر اراضی کے باوجود ہونے کی بات کہی گئی انہوں نے پوچھا کہ حکومت نے 44 ہزار ایکڑ اراضی کی باز یابی کو یقینی بنانے کیلئے کیا اقدامات کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اضلاع میں محکمہ مال سے ریکارڈ میں تبدیلی عمل میں لائی گئی ہے اب جبکہ حکومت نے ’’دھرانی پورٹل ‘‘ کے ذریعہ ریکارڈ کو اپ ڈیٹ کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے ضرورت تھی کہ وقف بورڈ تمام اضلاع میں ریٹائر محکمہ مال کے عہدیداروں کی خدمات حاصل کرتے ہوئے وقف بورڈ کے گزٹ اور منتخب کی روشنی میں محکمہ مال کے ریکارڈ میں اوقافی جائیدادوں کے ریکارڈ کے اندراج کو یقینی بنانے کے اقدامات کرتی لیکن اب تک اس سلسلہ میں بورڈ نے کوئی فیصلہ نہیں کیا ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اگر واقعی اوقافی جائیدادوں کی صیانت سے سنجیدہ ہے تو وقف بورڈ کو فوری تحلیل کرتے ہوئے وقف بورڈ کو اپنی تحویل میں لیتے ہوئے آئی اے ایس اور آئی پی ایس عہدیداروں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے انہوں نے کہا کہ وقف بورڈ نے عدالتی چارہ جوئی کیلئے ماہرین قانون کی کمیٹیاں تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا لیکن آج تک یہ کمیٹیاں تشکیل نہیں دی گئیں عدالتوں میں زیر دوران کئی مقدمات میں عدم پیروی اور وکلاء کے گٹھ جوڑ کے باعث کئی کیس میں وقف بورڈ کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور ہزاروں کروڑ کی جائیدادوں قابضین کے تصرف میں دیدی گئیں اور تمام ریکارڈ ز رکھنے کے باوجود عدالتوں میں وکلاء نے شواہد اور ثبوت کی بنیاد پر جائیدادوں کی باز یابی میں ناکام ثابت ہیں ۔ انہوں نے چیف منسٹر کے حالیہ اسمبلی اجلاس میں اعلان کے بعد کہ اوقافی جائیدادوں کا رجسٹریشن کا لعدم قرار دیا جائیگااور اوقافی جائیدادوں کے رجسٹریشن کو منسوخ کراتے ہوئے ان جائیدادوں کی باز یابی کو یقینی بنایا جائیگا۔ اس اعلان پر کس حد تک عمل درآمد کیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ علیحدہ تلنگانہ کے قیام سے قبل اور قیام کے بعد چیف منسٹر کی جانب سے کئے گئے اعلانات صرف زبانی وعدوں پاور دعوئوں تک محدود ہیں اور عملی اقدامات سے دور ہیں انہوں نے پوچھا اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کیلئے رکاوٹ بن رہا ہے اس کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کیلئے (جوڈیشل پاور )عدالتی اختیارات دینے اور دیانت دار ، آئی اپی ایس عہدیداروں کے ذریعہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے موجود وقف بورڈ عملی طور پر اوقافی جائیدادوں کے تحفظ اور باز یابی کیلئے ناکام نظر آتا ہے ۔ سید نجیب علی ایڈوکیٹ نے چیف منسٹر کے چندر شیکھر رائو سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وقف جائیدادوں کے تحفظ کیلئے ریاستی سطح پر کمیٹی کی تنظیم جدید عمل میں لائیں اور وقف جائیدادوں کی صیانت کیلئے جوڈیشل اختیارات دیتے ہوئے وقف جائیدادوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں ۔