ہجومی تشدد ‘ وزیر اعظم معذرت کرینگے ؟

   

میری صدا تو لوٹ کے کمرے میں آگئی
کس کا دریچہ بند ہوا کس کا کُھلا
مرکز میں 2014 میںبی جے پی کے برسر اقتدار آنے کے بعد ملک میں ہجومی تشدد کی نئی روایت اور سلسلہ شروع ہوگیا تھا ۔ بے شمار واقعات پیش آئے ہیںجن میںمحض بیف منتقل کرنے یا گائے چوری کرنے کے الزام میں مسلم نوجوانوںاور معمر افراد تک کو قتل کردیا گیا ۔ پیٹ پیٹ کر انہیں جان سے مار دیا گیا اور انتہائی افسوس کی بات ہے کہ سخت ترین قوانین ہونے کے باوجود آج تک بھی ملزمین کو سزائیںنہیںدلائی جاسکیں۔ یہ یا تو تحقیقاتی ایجنسیوں کی لا پرواہی ہے یا پھر وہ اپنے کام کے اہل نہیں رہ گئے ہیں۔ یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ سیاسی اشاروں پر کام کر رہے ہیں۔ یہ تینوں ہی پہلو ایسے ہیں جن سے تحقیقاتی ایجنسیوں کے خلاف خود بھی تحقیقات کروائی جاسکتی ہیں۔ انہیں جوابدہ بنایا جاسکتا ہے تاہم ایسا ہوا نہیں ہے کیونکہ بی جے پی قائدین ملزمین کی گلپوشی کرنے اور ان کی حمایت میں بیان دینے سے گریز نہیںکرتے ۔ ملک بھر میںرسواء کن عصمت ریزی مقدمات کے سزا یافتگان کوسنسکاری قرار دینے سے بھی یہ لوگ گریز نہیںکرتے ۔ ہجومی تشددکے واقعات کا سلسلہ کچھ وقت کیلئے تھما تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ فرقہ پرست طاقتیں مہاراشٹرا انتخابات کی تیاریاں شروع کرچکی ہیں اور اسی لئے ریاست میں ہجومی تشدد کا ایک واقعہ پیش آیا جس میں چلتی ٹرین میں ایک معمر اور بزرگ شخص کو بیف منتقل کرنے کے شبہ میں تشدد اور گالی گلوچ کا نشانہ بنایا گیا ۔ ان کے ساتھ مار پیٹ کی گئی ۔ ایک بزرگ اور معمر شخص کو ایک درجن سے زیادہ اوباش نوجوانوںنے تشدد کا نشانہ بنایا ۔ مار پیٹ کی اور گالی گلوچ کی گئی ۔ ایک ہفتہ قبل پیش آیا واقعہ تاخیر سے منظر عام پر آیا ہے ۔ اب گورنمنٹ ریلوے پولیس کی جانب سے تحقیقات جاری رہنے کا ادعا کیا گیا ہے ۔ دوسری ایجنسیاں اس کا نوٹ تک لینے کو تیار نہیںہیں۔ یہ ایجنسیوں کی جانبداری کہی جاسکتی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا حکومتیں اور ایجنسیاں اس طرح کے واقعات کا سخت نوٹ لے کر خاطیوں کو سزائیں کیوں نہیںدلاتیں۔ کیا ان پر کوئی دباؤ ہے یا پھر وہ اس طرح کے واقعات کی حمایت کرتی ہیں؟۔ حکومتیں بھی اس معاملے میں خاموشی اختیار کرنے کو ہی ترجیح دے رہی ہیں۔ اس سے حکومتوں کی سوچ اور ذہنیت کی بھی عکاسی ہونے لگی ہے ۔
گذشتہ دنوں مہاراشٹرا میں شیواجی کا مجسمہ منہدم ہوگیا تھا ۔ یہ کسی نے منہدم نہیں کیا تھا بلکہ شدید بارش کی وجہ سے یہ مجسمہ منہدم ہوگیا تھا اور اس پر مہاراشٹرا کے عوام کو رجھانے اور شائد انتخابات کو پیش نظر رکھتے ہوئے وزیر اعظم نریندرمودی نے معذرت خواہی کی تھی ۔ یہ ایک سیاسی ہتھکنڈہ ہوسکتا ہے ۔ یقینی طور پر شیواجی مراٹھا عوام کیلئے ایک بڑی اور عظیم شخصیت ہیں اور ان کے مجسمہ کو اگر کوئی نقصان پہونچاتا ہے تو یہ انتہائی قابل مذمت ہے ۔ تاہم اگر ایک جیتے جاگتے بزرگ اور معمر شخص کو ایک درجن سے زیادہ اوباش نوجوان تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ مارپیٹ کرتے ہیں اور گالی گلوچ کرتے ہوئے بدسلوکی کرتے ہیں تو یہ بھی اتنا ہی افسوسناک واقعہ ہے ۔ اس پر بھی وزیر اعظم کو معذرت خواہی کرنے کی ضرورت ہے ۔ اب تک ملک میں درجنوں ہجومی تشدد کے واقعات پیش آچکے ہیں۔ اس کے باوجود وزیر اعظم نے ان واقعات پر زبان نہیں کھولی ہے اور خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔چاہے وہ دادری میںاخلاق کا قتل ہو یا پھر جنید کا قتل ہو۔ چاہے وہ راجستھان میں پیش آیا واقعہ ہو یا پھر جھارکھنڈ میں کی گئی کارروائی ہو ۔ سبھی واقعات پر وزیراعظم نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے ۔ انہیں ایک معمر اور بزرگ شخص کے ساتھ ہوئی مارپیٹ اور بدسلوکی پر بھی افسوس کاا ظہار کرنا چاہئے ۔ اس پر بھی ملک کے اور مہاراشٹرا کے عوام سے معذرت خواہی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ یقین ہوسکے کہ واقعی حکومت سب کا ساتھ ۔ سب کا وکاس اور سب کا وشواش پر یقین رکھتی ہے ۔ تاہم ایسی امید موجودہ حکومت یا اس کے ذمہ داروں سے رکھنا شائد فضول ہی ہو ۔
ہجومی تشددسے نمٹنے کیلئے ملک میں قانون سازی کی باتیں بھی ہوئی تھیں۔ کئی گوشوںسے اس کیلئے اصرار بھی کیا گیا تھا ۔ بات آگے نہیں بڑھ پائی ہے ۔ اس طرح کے واقعات چاہے کسی کے ساتھ بھی ہوں مذموم ہیں اور سنگین جرم ہیں۔ اگر کوئی شخص بیف یا کوئی اور ممنوعہ شئے منتقل کر بھی رہا ہے تو عوام کو یہ اختیار نہیں کہ وہ قانون اپنے ہاتھ میں لے کر اسے سزا دے ۔ وہ پولیس سے معاملہ رجوع کرسکتے ہیں۔ قانون ہاتھ میں لینے کی کسی کو بھی اجازت نہیں ہے ۔ ایسے عناصر کو سخت ترین سزائیں دلائی جانی چاہئیں۔ جانبداری سے کام لینے سے گریز کیا جانا چاہئے اور ایسے جنونی فرقہ پرست اوباشوں کو سخت سزائیںدلاتے ہوئے دوسروں کیلئے نشان عبرت بنایا جانا چاہئے ۔ یہ سب کرنا حکومتوں کی ذمہ داری ہے اور حکومتوں پر دباؤ بناتے ہوئے اس کیلئے مجبور کیا جانا چاہئے ۔
تلنگانہ میں وبائی امراض
ویسے تو ملک کے مختلف حصوں میں موسم باراں کے دوران وبائی امراض پھوٹ پڑتے ہیں اور عوام اس کا شکار ہوتے ہیں۔ فی الحال بھی تلنگانہ میں بھی یہی صورتحال ہے ۔ بارش کے موسم میں وبائی امراض کا زور ہوگیا ہے ۔ ڈینگو خاص طور پر عوام کو اپنا شکار بنا رہا ہے ۔ تیز بخار ‘سردرد ‘ اعضاء شکنی اور دوسری شکایات کے ساتھ مریض سرکاری اور خانگی دونوں دواخانوں سے رجوع ہو رہے ہیں۔ ان کا علاج بھی ہو رہا ہے ۔ کئی صحتیاب بھی ہو رہے ہیں اور کئی اس کے مابعد اثرات کی وجہ سے بھی پریشان ہیں۔ بعض مریضوںمیں ڈینگو ٹسٹ کی رپورٹ منفی آنے کے باوجود علامات اور شکایات برقرار ہیں۔ محکمہ صحت کی جانب سے موجودہ صورتحال کا نوٹ لینے کی ضرورت ہے ۔ عوام کو وبائی امراض سے بچانے کیلئے ممکنہ حد تک احتیاطی اقدام کئے جانے چاہئیں۔ دواخانوںمیںعلاج و معالجہ کے اقدامات بھی ہونے چاہئیں۔ ضرورت پڑنے پر طبی معائنوں کیلئے بھی اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ شہروںاور دیہی علاقوں میں خاص طور پر صفائی کے اقدامات پر توجہ دی جانی چاہئے ۔ مچھروں کی وجہ سے بیماریاں اور وبائی امراض لاحق ہو رہے ہیں۔ صحت عامہ کے اہم مسئلہ کو پیش نظررکھتے ہوئے سرگرمی سے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ عوام کو بھی اس معاملے میںاحتیاط برتنے کی ضرورت ہے اور گھریلو ٹوٹکے اختیار کرنے کی بجائے ڈاکٹرس سے رجوع ہوتے ہوئے علاج پر توجہ دی جانی چاہئے ۔ اپنی اور اہل خانہ کی صحت سے کوئی غفلت نہیں برتی جانی چاہئے ۔