ہجومی تشدد کو روکنے قانون سازی وقت کا تقاضہ:ڈی ایم کے

   

عزت کے نام پر قتل کو روکنے کیلئے بھی قوانین کا مطالبہ۔ طلاق ثلاثہ کو مجرمانہ قرار دینے کی مخالفت
نئی دہلی 25 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) ڈی ایم کے نے آج لوک سبھا میں کہاکہ ملک میں ہجومی تشدد کو روکنے کے لئے قانون سازی وقت کا تقاضہ ہے۔ عزت کے نام پر قتل کے خلاف بھی قانون سازی کی جانی چاہئے۔ ڈی ایم کے نے طلاق ثلاثہ کو مجرمانہ قرار دینے کی شدید مخالفت کی۔ لوک سبھا میں مسلم خواتین (شادیوں پر حقوق کے تحفظ) بل 2019 پر مباحث میں حصہ لیتے ہوئے ڈی ایم کے لیڈر کنی موزھی نے کہاکہ وہ بحیثیت خاتون اِس بل کی شدید مخالفت کرتی ہیں۔ اُنھوں نے کہاکہ اِس بِل سے سماج میں درست پیام نہیں جائے گا۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ طلاق ثلاثہ بل کو مجرمانہ قرار دینے کے بجائے ایک ایسا بِل لائے جس کی مدد سے ہجومی تشدد کو روکا جاسکے اور نوجوان مرد اور خواتین کو عزت کے نام پر قتل ہونے سے بچایا جاسکے۔ حکومت جو کچھ قانون لانا چاہتی ہے انھیں سماج کے لئے بہتری کا ضامن ہونا چاہئے۔ حکومت طلاق ثلاثہ کو مجرمانہ قرار دینے پر زور دینے کے بجائے ہجومی تشدد کو روکنے کے خلاف بِل لانے پر توجہ دے اور یہی وقت کا تقاضہ ہے۔ ڈی ایم کے رکن نے یہ بھی کہاکہ حکومت کو خواتین تحفظ بل بھی لانا چاہئے۔ حکومت کے انتخابی منشور میں بھی خواتین تحفظ بل کا وعدہ کیا گیا تھا۔ حکومت کی یہ دوسری میعاد چل رہی ہے لیکن اب تک اِس نے خواتین تحفظ بل کو اپنی کارکردگی کی فہرست میں شامل نہیں کیا ہے۔ ڈی ایم کے لیڈر کنی موزھی نے کہاکہ لوک سبھا میں خاتون ارکان کو بھی چاہئے کہ وہ خواتین سے مربوط مسائل پر بحث و مباحث میں حصہ لے اور یہ آواز اُٹھائیں کہ ہم یہ نہیں چاہتے کہ مرد حضرات ہمارے لئے کیا درست ہے کیا غلط یہ نہ کہیں۔ اُنھوں نے کہاکہ بی جے پی کی ایک رکن خواتین کی آزادی کے بارے میں بات کرتی ہیں لیکن موجودہ صورتحال یہ بتاتی ہے کہ ہمیں کیا کھانا چاہئے کیا نہیں کھانا چاہئے اِس کی بھی اجازت نہیں دی جاتی۔ مسلم خواتین (شادی پر حقوق کے تحفظ) بِل کو انتشار پسندانہ اور امتیازات سے بھرپور قرار دیتے ہوئے اُنھوں نے کہاکہ قانون کی ازسرنو تیاری ایک ’’دھوکہ‘‘ ہے۔ گزشتہ سال راجیہ سبھا میں اِس قانون کو دستور کے مغائر قرار دیتے ہوئے روک دیا گیا تھا۔ اِس بِل میں کئی قسم کی خامیاں پائی جاتی ہیں۔ آخر اِس بل کو فطری طور پر کس طرح مجرمانہ قرار دیا جاسکتا ہے جبکہ یہ ایک سیول مسئلہ ہے۔ مرد حضرات کے حقوق کا تحفظ بھی ضروری ہے کیوں کہ جب خواتین کے حقوق کی بات کی جاتی ہے تو اِس میں مرد حضرات کا بھی حق شامل ہونا چاہئے۔ آخر متعلقہ وزیر کو صرف مسلم خواتین کی فکر کیوں ہے۔ ہندو اور عیسائی خواتین کے تعلق سے وہ فکر نہیں رکھتے۔ آخر مسلم مرد حضرات کو ہی نشانہ کیوں بنایا جارہا ہے۔ کنوی موزھی نے مزید کہاکہ گھریلو تشدد کے قوانین ہی مسلم خواتین کے تحفظ کے لئے کافی ہیں۔