ہجومی تشدد کے خلاف بنگال کا قانون

   

Ferty9 Clinic

سیر چمن کو آپ نہ جائیں خزاں کے ساتھ
صحنِ چمن میں ہوتا ہے ماتم کبھی کبھی
ہجومی تشدد کے خلاف بنگال کا قانون
ہندوستان کی مختلف ریاستوں کے کئی شہروں میں گذشتہ سات برسوں میں ہجومی تشدد کی ایک نئی روایت چل پڑی ہے ۔ اترپردیش کے دادری میں اخلاق کے قتل سے یہ روایت شروع ہوئی تھی جس کو بعد میں ملک کے کئی شہروں میں تقویت حاصل ہوئی ۔ کئی ریاستوں میں ایسے غیرانسانی اور بہیمانہ واقعات پیش آئے ہیں جہاں معمولی سے شک و شبہ کی بنیاد پر بے قصور اور نہتے انسانوں کو غیرانسانی سوچ و فکر رکھنے والے فرقہ پرست جنونیوں نے پیٹ پیٹ کر موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ جانوروں کی چوری سے لے کر گوشت کھانے تک کے شبہات کا اظہار کرتے ہوئے انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ ایسے واقعات نے ملک میں ایک نیا ہی ماحول پیدا کردیا ہے ۔ لوگ کسی اجنبی سے مراسم بنانے کی بجائے دوری اختیار کرنے میں زیادہ عافیت محسوس کر رہے ہیں۔ لوگ سفر میں خود کو غیر محفوظ متصور کرنے لگے ہیں۔ سارا کچھ حکومت کی خاموشی کی وجہ سے ہو رہا ہے بلکہ کچھ گوشوں کا تو یہ بھی ماننا ہے کہ ایسے سارے واقعات خود برسرا قتدار جماعت کی شہہ پر ہو رہے ہیں۔ ان شبہات کواس لئے بھی تقویت ملتی ہے کیونکہ کچھ واقعات میں نہتے اور بے قصور مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتاردینے والے قاتلوں اور جنونیوں کو جیلوں سے ضمانت پر رہائی کے بعد مرکزی وزراء نے تک پھول پہنائے تھے اور انہیں تہنیت پیش کی تھی ۔ حکومت نے ان معاملات پر خاموشی اختیار کرتے ہوئے بالواسطہ طور پر ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی کی ہے ۔ مختلف گوشوں کی جانب سے مسلسل اصرار کیا جارہا تھا کہ ہجومی تشدد سے نمٹنے کیلئے سخت گیر قانون بنایا جائے ۔ بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں تو ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے اور خود متاثرین اور مظلومین کے خلاف مقدمات درج کرتے ہوئے انہیں جیلوں میں بند رکھا جا رہا ہے کہ جبکہ حملہ آور اور قاتل کھلے عام گھوم رہے ہیں۔ انہیں قانون کا کوئی خوف نہیں رہ گیا ہے ۔ ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے ملک میں پہلے سے کوئی قانون موجود نہیں ہے ۔ تاہم اب مغربی بنگال نے اس سلسلہ میں پہل کرتے ہوئے ایک سخت گیر قانون اس سے نمٹنے تیار کیا ہے ۔
بنگال میں ممتابنرجی حکومت نے جو قانون بنایا ہے اس کے مطابق ہجومی تشدد میں کسی کو ہلاک کرنے پر تین تا پانچ سال قید کی سزا ہوسکتی ہے ۔ اس قانون میں جرم کی سنگینی کے مطابق عمر قید اور سزائے موت کی گنجائش بھی فراہم کی گئی ہے ۔ یہ در اصل ایک مثالی اقدام ہے ۔ حالانکہ ایسا قانون سارے ملک میں بنایا جانا چاہئے تاکہ ہجومی تشدد کے واقعات کو روکا جاسکے اور معصوم اور بے گناہ افراد کو صرف شک و شبہ کی بنیاد پر یا تعصب کی وجہ سے مرنے سے بچایا جاسکے ۔ اس قانون کا مقصد بے گناہ افراد کو بچانا اور ان کے دستوری حقوق کا تحفظ کرنا ہے ۔ اس کے علاوہ اس قانون کے ذریعہ ہجومی تشدد میں ملوث ہونے والے افراد کے ذہنوں میں قانون کا خوف پیدا کرنا ہے اور انہیں انسانیت سوز جرم سے باز رکھنے کی کوشش کرنا ہے ۔ اس کے ذریعہ خود عوام میں بھی ایک طرح کا اعتماد بحال ہوسکتا ہے اور وہ خوف کے سائے سے باہر آسکتے ہیں۔ متاثرین میں جہاں اعتماد پیدا ہوسکتا ہے وہیں مجرمین میں قانون کا خوف پیدا ہوسکتا ہے جس کے نتیجہ میں اس طرح کے واقعات کی روک تھام میں مدد مل سکتی ہے ۔ بنگال اسمبلی میں اس قانون سے متعلق بل کو ندائی ووٹ کے ساتھ منظوری دیدی گئی ہے ۔ ملک بھر میں اور بعض مواقع پر بنگال میں جو واقعات پیش آئے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے یہ قانون بنایا گیا ہے اور اس پر سختی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔ ملک میں کسی کو بھی کسی بھی صورتحال میں قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی گنجائش نہیں ہے اور یہ کام صرف پولیس اور دوسری ایجنسیوں کا ہے ۔ تاہم لوگ جس طرح ہجومی تشدد میں ملوث ہو رہے تھے وہ قابل مذمت تھا ۔
متاثرین پر چوری کے واقعات میں ملوث رہنے یا پھر جانوروں کی اسمگلنگ کرنے کے بے بنیاد الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں۔ اگر یہ الزامات درست بھی ہوتے ہیں تو کسی بھی ہجوم کو قانون اپنے ہاتھ میں لے کر کسی کو سزا دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے ۔ ہمارے دستور اور قانون میں نفاذ قانون کی ایجنسیاں ہیں جو یہ کام کرنے کی مجاز ہیں۔ جس طرح دیگر جرائم کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے اسی طرح ہجومی تشدد کے خلاف بھی سخت سزاوں والے قانون کی ضرورت تھی جسے بنگال نے پورا کیا ہے اور اب ملک کی مختلف ریاستوں اور مرکزی حکومتوں کو بھی اس تعلق سے قانون بنانے کی ضرورت ہے ۔
فیول قیمتیں ‘ طالبان ذمہ دار !
بی جے پی کے قائدین ایسا لگتا ہے کہ دماغی توازن کھونے لگے ہیں اور ایسے ریمارکس کر رہے ہیں جو حقیقت سے بعید ہیں۔ اب کرناٹک میں بی جے پی رکن اسمبلی اروند بیلاڈ نے دعوی کیا ہے کہ افغانستان بحران کی وجہ سے ہندوستان کو خام تیل کی سپلائی متاثر ہوئی ہے اسی لئے فیول کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ واضح رہے کہ ہندوستان دنیا میں تیسرا سب سے زیادہ خام تیل درآمد کرنے والا ملک ہے تاہم اسے تیل سپلائی کرنے والوں میں افغانستان شامل نہیں ہے ۔ ہندوستان کو سب سے زیادہ تیل فراہم کرنے والے ممالک میں عراق ‘ سعودی عرب ‘ متحدہ عرب امارات ‘ نائجیریا ‘ امریکہ اور کناڈا شامل ہیں۔ بی جے پی کے قائدین عوام کو گمراہ کرنے من مانی اور بے سر و پیر کی باتیں کرنے میں مہارت رکھتے ہیں تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ ان کی دماغی حالت بھی متاثر ہونے لگی ہے ۔ تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ حکومت کی حرص کی وجہ سے ہو رہا ہے ۔ حکومت خام تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود عوام کو راحت پہونچانے کی بجائے خزانہ بھرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے ۔ کوئی بی جے پی لیڈر مہنگائی کیلئے کانگریس کو ذمہ دار قرار دیتا ہے تو کوئی پنڈت نہرو پر تنقید کرتا ہے اور اب افغانستان کا عذر پیش کیا جا رہا ہے ۔ ایسے قائدین کو اپنے طبی معائنے کروانے چاہئیں۔