کہانی میں نئے کردار شامل ہوگئے ہیں
نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشا ختم ہوگا
ہریانہ اسمبلی انتخابات کیلئے ماحول سیاسی اعتبار سے بہت گرم ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ بی جے پی اور کانگریس دونوں ہی جماعتوں کی سرگرمیاں انتخابی عمل کیلئے تیز ہوگئی ہیں۔ اب رائے دہی کا وقت قریب آتا چلا جا رہا ہے اور دونوں ہی پارٹیوں کے کچھ بڑے قائدین ہریانہ کا رخ کرنے لگے ہیں۔ بی جے پی کی بظاہر ساری توجہ جموںو کشمیر پر مرکوز دکھائی دے رہی ہے ۔ بی جے پی کیلئے وزیر داخلہ امیت شاہ خاص طور پر کشمیر پر توجہ دئے ہوئے ہیں اور کئی ریلیوں اور جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں۔ دوسرے قائدین کو بھی لگاتار جموں و کشمیر کے دورہ کی ہدایات جاری کردی گئی ہیں اور وہ بھی مصروف ہوگئے ہیں۔ وزیر اعظم بھی انتخابی سرگرمیوں سے دور نہیں ہیں۔ ہریانہ کیلئے بھی سیاسی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں۔ ہریانہ میں ایک ہی مرحلہ میں ووٹ ڈالے جانے ہیں اور پھر جموںو کشمیر اور ہریانہ کیلئے ایک ہی دن ووٹوں کی گنتی اور نتائج کا اعلان ہوگا ۔ جہاں تک ہریانہ کی بات ہے تو بی جے پی یہاں مشکل حالات کا شکار دکھائی دے رہی ہے ۔ دو معیادوں تک حکومت کرنے کے بعد بی جے پی لگاتار تیسری معیاد کیلئے کوشش کر رہی ہے ۔ عوام کے موڈ کو قبل از وقت محسوس کرتے ہوئے چیف منسٹر کی حیثیت سے منوہر لال کھٹر کو تبدیل کردیا گیا تھا اور نائب سنگھ سائنی کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے ۔ جو حالات اب تک ہریانہ میں دکھائی دے رہے ہیں ان کے مطابق بی جے پی کیلئے اپنے اقتدار کو بچانے اور لگاتار تیسری معیاد حاصل کرنا آسان نہیں رہ گیا ہے ۔ کانگریس پارٹی کے تعلق سے عوام میں مثبت رائے دکھائی دے رہی ہے ۔ خود کانگریس قائدین اور کیڈر میں بھی جوش و خروش دکھائی دے رہا ہے ۔ کئی قائدین پارٹی کیلئے مہم چلا رہے ہیں۔ اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے بی جے پی نے سینئر کانگریس لیڈر کماری شیلجا کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اس کی یہ کوشش ناکام ہوگئی ہے کیونکہ کماری شیلجا نے خود ہی یہ واضح کردیا ہے کہ کانگریس خون کی طرح ان کی رگوں میں دوڑتی ہے اور پارٹی چھوڑنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ بی جے پی کی یہ کوشش بری طرح ناکام ہوئی ہے ۔
اپنے مشکل انتخابی سفر میں سہارا حاصل کرنے کی نیت سے بی جے پی نے یہ کھیل رچنے کی کوشش کی تھی ۔ کماری شیلجا کے تعلق سے بظاہر ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں راغب کرنے کا حربہ اختیار کیا گیا ۔ انتخابات کے موقع پر ایک جماعت کے کئی قائدین کی رائے ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے ۔ یہی مسئلہ کانگریس میں بھی ہے ۔ ہمیشہ سے رہا بھی ہے ۔ کماری شیلجا اور دوسرے سینئر قائدین میں اختلاف رائے ضرور ہے ۔ کانگریس پارٹی کو اس کا علم بھی ہے اور اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے پارٹی کی جانب سے ممکنہ اقدامات بھی کئے جا رہے ہیں۔ سبھی قائدین کو ساتھ مل جل کر کام کرنے کیلئے تاکید کی گئی ہے اور ان کی تجاویز وغیرہ پر غور بھی کیا جا رہا ہے ۔ بی جے پی نے اس صورتحال کا استحصال کرنا چاہا تاہم کامیاب نہیں ہوئی ۔ خود بی جے پی میں اس طرح کے بے شمار مسائل ہیں۔ بی جے پی کے کئی قائدین پارٹی سے ناراض ہوگئے ۔ انہوں نے پارٹی چھوڑ دی ۔ کچھ کانگریس میں شامل ہوگئے ۔ کچھ بحیثیت آزاد امیدوار انتخابی میدان میں اتر گئے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ کچھ موجودہ وزراء تک بھی پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ کئی موجودہ ارکان اسمبلی کو ٹکٹ نہیں دیا گیا ۔ ٹکٹ کے خواہشمند کئی سینئر قائدین کو بھی مایوسی ہوئی اور انہوں نے اپنی ناراضگی اور مایوسی کا کھل کر اظہار بھی کیا ہے ۔ بی جے پی اسی صورتحال کی وجہ سے بوکھلاہٹ کا شکار دکھائی دے رہی ہے اور اسی لئے کانگریس کے ساتھ یہی کھیل کھیلنے کی کوشش کی گئی تھی تاہم اسے کامیابی نہیں مل سکی ۔
ہریانہ اسمبلی انتخابات کے تعلق سے اب تک کے جو حالات دکھائی دے رہے ہیں وہ بی جے پی کے خلاف جاتے نظر آ رہے ہیں۔ وقفہ وقفہ سے عوام کی جو رائے سامنے آ رہی ہے وہ بھی بی جے پی کیلئے تشویش کا باعث دکھائی دے رہی ہے ۔ بی جے پی کو یہ فکر لاحق ہے کہ ہریانہ میں اگر شکست ہوجائے تو اس کے جھارکھنڈ اور مہاراشٹرا پر بھی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ایسے میں بی جے پی ہر حربہ اور ہتھکنڈہ اختیار کر رہی ہے لیکن اسے کسی میں کامیابی ملتی نظر نہیں آ رہی ہے ۔ قطعی رائے اور فیصلہ تو ہریانہ کے عوام اپنے ووٹ سے سنائیں گے تاہم حالات بی جے پی کی ہیٹ ٹرک کے موافق دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔