ہریانہ میں اسمبلی انتخابات کیلئے ماحول بتدریج گرم ہونے لگا ہے ۔ سیاسی جماعتیں اپنی اپنی تیاریوں میں مصروف ہیں اور کامیابی کے منصوبے بنانے میں مصروف ہیں۔ ریاست میں بی جے پی اپنی تیسری معیاد حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور انتخابی حکمت عملی بنانے میں مصروف ہے ۔ کانگریس پارٹی ریاست میں اقتدار پر واپسی کیلئے جدوجہد کر رہی ہے ۔ حالیہ لوک سبھا انتخابات کے بعد سے ریاست کے سیاسی حالات میں تبدیلی ضرور محسوس کی جا رہی ہے ۔ ہریانہ کی 10 لوک سبھا نشستوں میں کانگریس نے پانچ پر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے کو پانچ نشستیںحاصل ہوئی تھیں۔ عام آدمی پارٹی نے کانگریس سے اتحاد کرتے ہوئے ایک نشست پر مقابلہ کیا تھا تاہم اس حلقہ میں عام آدمی پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ اب جبکہ ریاست میں اسمبلی انتخابات کا اعلان ہوچکا ہے اور شیڈول جاری ہوچکا ہے سیاسی سرگرمیاں ایک بار پھر سے شدت اختیار کرنے لگی ہیں۔ بی جے پی کی اپنی تیاریوں سے قطع نظر کانگریس لیڈر راہول گاندھی نے اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ ان کی پارٹی کو ہریانہ میں انڈیا اتحاد کی جماعتوں کے ساتھ مل کر مقابلہ کرنے پر غور کرنا چاہئے ۔ راہول گاندھی کے اس مشورہ کے بعد کانگریس قائدین بھی اس جانب توجہ دے رہے ہیں اور جو اطلاعات ہیں ان کے مطابق کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے مابین انتخابی مفاہمت کے تعلق سے اصولی اتفاق ہوچکا ہے ۔ تاہم ابھی د ونوں جماعتوں کے مابین نشستوں کی تقسیم کے انتہائی پیچیدہ اور اہم مسئلہ پر مذاکرات ہونے ہیں تاہم یہ کہا جا رہا ہے کہ راہول گاندھی کے مشورہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس مسئلہ کو بھی حل کرلیا جائیگا اور کانگریس پارٹی عام آدمی پارٹی کو اس الیکشن میں اپنے ساتھ لانے میں کامیاب ہوجائے گی ۔ جہاںتک عام آدمی پارٹی کا سوال ہے تو کہا جا رہا ہے کہ رکن راجیہ سبھا راگھو چڈھا اس مسئلہ پر کانگریس جنرل سکریٹری کے سی وینو گوپال سے رابطے میں ہیں ۔ کہا جا رہا ہے کہ دونوںنمائندوں نے نشستوں کی تعداد اور نشاندہی کے تعلق سے مذاکرات بھی شروع کردئے ہیں۔
اب چونکہ پرچہ نامزدگی داخل کرنے کا وقت قریب آتا جا رہا ہے اور سیاسی جماعتوں کے قائدین کی امیدوں میں بھی انتخابی ماحول میں اضافہ ہو جاتا ہے ایسے میں کانگریس اور دوسری حلیف جماعتوں کیلئے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ انتخابی مفاہمت کو جلد قطعیت دیں اور پارٹی قائدین اور کیڈر میں الجھن پیدا ہونے کا موقع نہ دیا جائے ۔ کانگریس کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ہریانہ میں سماجوادی پارٹی کیلئے بھی کوئی گنجائش رکھے کیونکہ ہریانہ میں اکھیلیش یادو کی پارٹی کا کچھ وجود ضرور ہے ۔ مدھیہ پردیش اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی ریاستی قیادت کے غیر ذمہ دار رویہ اور بیانات کی وجہ سے کانگریس کو بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اکھیلیش یادو نے ریاستی قیادت کے رویہ پر ناراضگی بھی ظاہر کی تھی ۔ کسی بھی اتحاد میں شامل جماعتوں کیلئے ایک دوسرے کے خلاف بیان بازیاں یا ناراضگی مناسب نہیںہوتی ۔ ایک گروپ میں موجود جماعتوں کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ الجھن اور غلط فہمیوں سے بچنے کی کوشش کریں۔ اختلاف رائے کو جتنا جلد ممکن ہوسکے دور کرلیا جائے اور اپنے اپنے کیڈر اور قائدین میں ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہونے نہ دی جائے ۔ انڈیا اتحاد کیلئے بھی ضروری ہے کہ ہریانہ میں اپنے قائدین اور کیڈر کے حوصلے بلند رکھیں۔ ان کیلئے الجھن پیدا ہونے نہ دی جائے ۔ ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھا جائے اور ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے متحدہ مقابلہ کرنے عوام سے رجوع ہوا جائے ۔
چونکہ جموںو کشمیر اور ہریانہ اسمبلی انتخابات کے بعد مہاراشٹرا اور جھارکھنڈ میں بھی اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں ایسے میں ہریانہ کے انتخابات اپوزیشن اتحاد کیلئے بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ ان انتخابات میں اگر انڈیا اتحاد کو کامیابی حاصل ہوتی ہے تو اس کے مہاراشٹرا اور جھارکھنڈ پر بھی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ہریانہ میں اپوزیشن کیلئے ماحول سازگار ہے ۔ اس ماحول سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ اگر اتحادی جماعتیں ایک دوسرے سے اشتراک کرتے ہوئے مفاہمت کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں تو موجودہ سیاسی ماحول کو اپنے کامیابی کیلئے موثر ڈھنگ سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔