پیار اور مروّت کی چھاؤں بھی ضروری ہے
صرف آدمیوں سے بستیاں نہیں ہوتیں
ہریانہ میں اسمبلی انتخابات کیلئے سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں۔ ریاست میں بی جے پی لگاتار تیسری معیاد کیلئے کوشش کر رہی ہے جبکہ کانگریس ایک دہے بعد ریاست میں اقتدار پر واپسی کیلئے جدوجہد کر رہی ہے ۔ دونوں ہی جماعتوں کی جانب سے امیدواروں کے انتخاب کا عمل چل رہا ہے اور سیاسی اتھل پتھل بھی تیز ہوگئی ہے ۔ خاص طور پر بی جے پی میں سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں۔ بی جے پی نے 90 رکنی اسمبلی کیلئے 67 امیدواروں کی پہلی فہرست جاری کی ہے اور اس کے ساتھ ہی بی جے پی میں ہنگامہ آرائی شروع ہوگئی ہے ۔ ٹکٹ سے محروم کئی قائدین پارٹی سے ناراض ہو کر مستعفی ہوگئے ہیں۔ مستعفی ہونے اور ناراضگی ظاہر کرنے والے کوئی مقامی قائدین نہیں ہیں بلکہ وہ اپنے حلقوں میں کافی اثر رکھتے ہیں۔ پارٹی سے مستعفی ہونے والوں میں موجودہ رکن اسمبلی ‘ موجودہ وزیر ‘ سابق وزیر اور دوسرے بڑے قائدین بھی شامل ہیں۔ یہ قائدین کھلے عام پارٹی کے خلاف تنقیدیں کر رہے ہیں۔ بات تو یہاں تک پہونچ گئی ہے کہ جو قائدین پارٹی ٹکٹ نہ ملنے پر ناراض ہیں وہ چیف منسٹر نائب سنگھ سائنی سے مصافحہ تک کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ بی جے پی سے استعفی پیش کرنے والے قائدین میں پارٹی کے کئی اہم تنظیمی ذمہ داران بھی شامل ہیں۔ چند ماہ قبل ہی بی جے پی میں شمولیت اختیار کرنے والے قائدین بھی اب پارٹی سے ناراض ہوگئے ہیں اور ٹکٹ نہ ملنے پر وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے مقابلہ کا بھی اعلان کر رہے ہیں۔ ایک سابق وزیر نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے مقابلہ کا اعلان کردیا ہے جبکہ ایک موجودہ رکن اسمبلی نے کانگریس میں شمولیت اختیار کرلی ہے اور دہلی پہونچ کر بھوپیندر سنگھ ہوڈا سے ملاقات بھی کی ہے ۔ کئی قائدین ایسے ہیں جو اپنے حامیوں اور پارٹی ورکرس سے مشاورت کے بعد مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ کچھ قائدین امید کی جا رہی ہے کہ بہت جلد کانگریس میں شمولیت کا اعلان کریں گے ۔ کانگریس نے بھی اپنے کچھ امیدواروں کی فہرست جاری کردی ہے ۔ جن حلقوں سے کانگریس امیدواروں کا اعلان ہوچکا ہے ان حلقوں میں بھی بی جے پی کی صفوں میں بے چینی کی کیفیت دکھائی دے رہی ہے اور ناراض قائدین غور و خوض میں مصروف ہیں۔
گذشتہ سال کرناٹک میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں بھی اسی طرح کی صورتحال پیدا ہوئی تھی ۔ اسمبلی انتخابات سے قبل سے ہی اور انتخابی شیڈول جاری ہونے کے بعد بھی کئی سینئر قائدین ‘ وزراء اور سابق چیف منسٹر نے بھی بی جے پی سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے کانگریس میں شمولیت اختیار کی تھی ۔ کئی قائدین پارٹی کے فیصلوں پر کھل کر تنقیدیں کرنے لگے تھے ۔ بی جے پی کی صفوں اور کیڈر میں مایوسی کی کیفیت پیدا ہوگئی تھی ۔ اس کا لازمی نتیجہ انتخابات میں سامنے آیا اور کرناٹک میں بی جے پی اقتدار سے محروم ہوگئی تھی اور کانگریس نے شاندار واپسی کی تھی ۔ کانگریس نے جنتادل ایس کی تائید کے بغیر تنہا مقابلہ کرتے ہوئے یہ کامیابی درج کروائی تھی ۔ اب جبکہ ہریانہ میں بھی انتخابی شیڈول جاری ہوگیا ہے اور سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں صورتحال کانگریس کیلئے کرناٹک کی طرح ہی دکھائی دے رہی ہے ۔ جس طرح سے بی جے پی کے کئی قائدین پارٹی سے ناراض ہو کر اور ٹکٹ سے محرومی کی وجہ سے مستعفی ہو رہے ہیں اسی طرح کئی سرکردہ اور عوامی چہرے کانگریس میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ ان میں ملک کا نام روشن کرنے والی ونیش پھوگٹ اور بجرنگ پونیا بھی شامل ہیں۔ یہ دونوں اولمپئن ریسلرس ہیں۔ ونیش پھوگٹ اور بجرنگ پونیا نے کانگریس میں شمولیت اختیار کرلی ہے اور کانگریس نے ونیش پھوگٹ کو پارٹی ٹکٹ کا بھی اعلان کردیا ہے ۔ کانگریس نے ونیش پھوگٹ کو جولانا حلقہ سے اپنی امیدوار نامزد کیا ہے جبکہ بجرنگ پونیا کے نام کا ابھی اعلان نہیں ہوا ہے تاہم کہا جا رہا ہے کہ وہ بھی پارٹی امیدوار ہوسکتے ہیں۔
جہاں ونیش پھوگٹ اور بجرنگ پونیا کی شمولیت سے کانگریس کے انتخابی امکانات میں بہتری آئے گی وہیںکانگریس پارٹی ریاست میں عام آدمی پارٹی کے ساتھ انتخابی مفاہمت کیلئے بھی بات چیت میں مصروف ہے ۔ جن حلقوں سے امیدواروں کے ناموں کا اعلان نہیں ہوا ہے ان پر عآپ کے ساتھ بات چیت ہو رہی ہے ۔ اگر کانگریس پارٹی راہول گاندھی کے مشورہ کے مطابق عام آدمی پارٹی سے مفاہمت کو قطعیت دینے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو کانگریس کیلئے اپنے انتخابی امکانات کو بہتر بنانے کا موقع رہے گا اور ساتھ ہی بی جے پی کی مشکلات میں اضافہ ہوگا ۔ موجودہ صورتحال میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہریانہ بھی بی جے پی کیلئے دوسرا کرناٹک بن رہا ہے اور وہاں بھی اسے اپنا اقتدار بچانے کافی پاپڑ بیلنے پڑیں گے اور لگاتار تیسری معیاد کیلئے حکومت بنانا پارٹی کیلئے آسان نہیں رہے گا۔
سیلاب کی تباہی ‘ مساوی امداد ضروری
دو تلگو ریاستوں تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں سیلاب نے زبردست تباہی مچائی ہے ۔ لگاتار بارش کی وجہ سے جہاںفصلوںکو نقصان ہوا ہے وہیں جانیں بھی تلف ہوئی ہیںاور مکانات کو بھی نقصان پہونچا ہے ۔ جانور اور مویشی بھی تلف ہوگئے ہیں۔ لوگ بے گھر بھی ہوئے ہیں اور ان کا ذریعہ معاش بھی متاثر ہو کر رہ گیا ہے ۔ مرکزی حکومت کی جانب سے تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں نقصانات کا جائزہ لینے کی پہل شروع ہوگئی ہے ۔ مرکزی وزیر زراعت شیوراج سنگھ چوہان نے دونوں ریاستوں کا دورہ کیا اور نقصانات کا جائزہ لیا ہے ۔ مرکزی حکومت کی بین وزارتی ٹیم بھی تشکیل پا گئی ہے جو نقصانات کا جائزہ لے گی اور مرکزی حکومت سے امداد کی سفارش کی جائے گی ۔ دونوں ہی ریاستوں میں بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ مرکزی حکومت کی جانب سے سیلاب سے تباہی کے بعد امداد رسانی میں یکسانیت برقارر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ مرکزی بجٹ میں تلنگانہ کو فنڈز سے محروم رکھا گیا ہے اور آندھرا پردیش پر انعامات اور اسکیمات کی بارش کی گئی تھی ۔ مرکزی حکومت کا استحکام آندھرا پردیش کی برسر اقتدار تلگودیشم کی تائید پر ہے ۔ ایسے میں مرکز کا جھکاؤ آندھرا پردیش کی جانب ہوسکتا ہے۔ تاہم وفاقی طرز حکمرانی میں یہ ضروری ہے کہ مرکزی حکومت امداد رسانی میں کوئی امتیاز نہ کرے بلکہ تلنگانہ کو بھی آندھراپردیش کی طرح فراخدلانہ امداد فراہم کرے تاکہ جو نقصانات سیلاب و بارش سے ہوئے ہیں ان کی تلافی ممکن ہوسکے ۔