ہریانہ ‘ توڑ جوڑ روکنا ضروری

   

ایک طرف ملک میںانتخابات کا عمل پورے عروج پر پہونچا ہوا ہے اور تین مراحل میں رائے دہی ہوچکی ہے جبکہ چوتھے مرحلے کیلئے انتخابی مہم جاری ہے ایسے میںاچانک ہی ہریانہ میں حالات تبدیل ہوچکے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ریاست میں بی جے پی کی صاحب سنگھ سائنی کی حکومت کا دورانیہ ختم ہونے والا تھا ۔ یہ ایسے وقت ہو رہا ہے جبکہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اوڈیشہ کی بیجو جنتادل حکومت کا دورانیہ 4 جون کو ختم ہوجائیگا ۔ اس سے قبل ہی ہریانہ میں بی جے پی حکومت کی تائید کرنے والے تین آزاد ارکان اسمبلی نے بی جے پی حکومت کا دورانیہ ختم کرنے کی سمت پیشرفت کردی ہے اور اس کی تائید سے دستبرداری اختیار کرنے کے علاوہ لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کی تائید کرنے کا اعلان کردیا ہے ۔ یہ صورتحال بی جے پی کیلئے اچانک اور غیر متوقع طور پر پیدا ہوئی ہے ۔ بی جے پی اورا س کے قائدین دوسری حکومتوں کو خبردار کرنے میں مصروف رہے اور ہریانہ میں اس کی اپنی حکومت کیلئے خطرہ پیدا ہوگیا ہے ۔ جن نائک جنتا پارٹی کو بی جے پی نے چند ماہ قبل ہی چھوڑ دیا تھا اور اس کے ساتھ اتحاد کو ختم کرتے ہوئے اسے ڈپٹی چیف منسٹر کے عہدہ سے محروم کردیا تھا ۔ خود چیف منسٹر کی حیثیت سے بی جے پی نے منوہر لال کھٹر کو تبدیل کرتے ہوئے صاحب سنگھ سائنی کو عنان اقتدار سونپا تھا ۔ بی جے پی کی حکمت عملی تھی کہ ریاست میں مخالف حکومت لہر کے اثر کو توڑا جائے اور نئے چہرے پر عوام سے ووٹ مانگے جائیں۔ ویسے بھی ہریانہ میں بی جے پی کیلئے پارلیمانی انتخابات میں عوام کی تائید حاصل کرنا آسان نہیں رہ گیا ہے اور وہاں بھی اسے نشستوں کے اعتبار سے نقصان ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ ایسے میں ریاست کی حکومت ہی اگر بی جے پی کے ہاتھ سے نکل جائے تو پھر صورتحال اور بھی ابتر ہوسکتی ہے ۔ ایسے میں بی جے پی کی جانب سے اقتدار پر برقراری کیلئے کئی طرح کے حربے اور ہتھکنڈے اختیار کئے جاسکتے ہیں۔ بی جے پی جمہوریت سے زیادہ طاقت کے استعمال میں یقین رکھتی ہے اور بہر صورت اقتدار پر برقرار رہنا چاہتی ہے ۔ اس کیلئے وہ کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار ہوجاتی ہے ۔
ہریانہ کی 90 رکنی اسمبلی میں بی جے پی کے پاس 40 ارکان اسمبلی ہیں۔ اسے اقتدار کو برقرار رکھنے کیلئے مزید چھ ارکان اسمبلی کی تائید درکار ہے ۔ بی جے پی مخالف جماعتوں کے ارکان اسمبلی کو توڑنے کی کوشش بہر صورت کریگی ۔ وہ مرکز میں اپنے اقتدار کا بیجا استعمال کرتے ہوئے اور تحقیقاتی ایجنسیوں کا خوف دلاتے ہوئے یا پھر بھاری رقومات کا لالچ دیتے ہوئے ارکان اسمبلی کو خریدنے کی کوشش کرسکتی ہے ۔ موجودہ صورتحال میں بی جے پی کیلئے ہریانہ میں اقتدار کی برقراری از حد ضروری ہے اس لئے وہ کسی بھی حد تک جاسکتی ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں اور خاص طور پر کانگریس اور جے جے پی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ارکان اسمبلی کے گرد حاشیہ تنگ رکھیں۔ ان پر نظر رکھی جائے ۔ بی جے پی کو کسی بھی سازش میں کامیاب ہونے کا موقع فراہم نہ کیا جائے ۔ موجودہ صورتحال میں جے جے پی اور آزاد ارکان اسمبلی کی تائید حاصل کرتے ہوئے ریاست میں کانگریس اقتدار حاصل کرسکتی ہے ۔ اس سمت میں کانگریس کو کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ اقتدار کے حصول کی صورت میں پارٹی کی صفوں کو متحد رکھا جاسکتا ہے ۔ ویسے بھی ریاست میں دوسری معیاد کیلئے بی جے پی کے اقتدار میں عوام بیزار نظر آ رہے تھے ۔ عوام میں حکومت مخالف احساسات زیادہ ہی دکھائی دے رہے تھے ۔ تین ارکان اسمبلی کی جانب سے تائید سے دستبرداری اور کانگریس کی تائید کے اعلان نے ریاست کے رائے دہندوں کیلئے ایک طرح سے فیصلہ کرنا بھی آسان کردیا ہے ۔
بی جے پی کی قیادت انتخابات کے موقع پر اس طرح کے نقصان کو آسانی سے برداشت نہیں کرے گی ۔ وہ کسی؎ بھی قیمت پر اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کی کوشش کرے گی ۔ وہ کانگریس یا جے جے پی کے ارکان اسمبلی کی تائید حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی ۔ کانگریس یا جے جے پی کے ارکان اسمبلی کو اپنی اپنی پارٹیوں کے ساتھ برقرار رکھنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ جو آزاد ارکان اسمبلی بی جے پی سے دور ہوئے ہیں ان کو بھی ساتھ رکھتے ہوئے بی جے پی کو اس کی سازشوں میں کامیاب ہونے سے روکنا چاہئے ۔ تمام جماعتوں کی ریاستی قیادت کیلئے یہ بہترین موقع ہے جسے گنوایا نہیں جانا چاہئے ۔