ہریانہ ‘ سیاسی اتھل پتھل سے مشکلات

   

سیاست میں کبھی ایسی حالت بھی پائی جاتی ہے
طبعیت اور گھبراتی ہے جب بہلائی جاتی ہے
جموں و کشمیر اور ہریانہ میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اب پرچہ جات نامزدگیوں کے ادخال کیلئے ہریانہ میں بہت کم وقت رہ گیا ہے ۔ جموں و کشمیر میں تو تین مراحل میں ووٹ ڈالے جائیں گے جبکہ ہریانہ میں ایک ہی مرحلے میں ووٹنگ ہوگی ۔ جموں و کشمیر کے انتخابات کا زیادہ چرچا سنائی نہیں دے رہا ہے ۔ وہاں علاقائی جماعتوں کو زیادہ توجہ حاصل ہے جبکہ بی جے پی اور کانگریس جیسی قومی جماعتیں بھی مقابلہ کر رہی ہیں تاہم ساری توجہ ان دنوں ہریانہ پر ہے ۔ ہریانہ میں کانگریس اقتدار پر ایک دہے بعد واپسی کیلئے جدوجہد کر رہی ہے تو دوسری جانب بی جے پی لگاتار تیسری معیاد کیلئے کامیابی حاصل کرنے کی خواہاں ہے ۔ دونوں ہی جماعتوں کی جانب سے اپنے اپنے امیدواروںک ا اعلان کیا جا رہا ہے اور امیدواروں کی فہرست کی اجرائی کے بعد سیاسی اتھل پتھل زیادہ ہوگئی ہے ۔ بی جے پی کو سب سے زیادہ مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔بی جے پی کے دو وزراء ‘ ایک موجودہ رکن اسمبلی اور سابق ارکان اسمبلی کے علاوہ پارٹی کے کئی ذمہ دار قائدین استعفے پیش کر رہے ہیں اور ان کا الزام ہے کہ ٹکٹ کی ان کی دعویداری کو نامناسب انداز میں نظرانداز کردیا گیا ہے ۔ ان سے وعدہ کرنے کے باوجود ٹکٹ نہیں دیا گیا ہے ۔ کئی قائدین جہاں آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابی میدان میں قسمت آزمائی کا اعلان کر رہے ہیں وہیں کچھ قائدین نے کانگریس اور دوسری جماعتوں میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے صورتحال کو مزید گنجلک اور پیچیدہ کردیا ہے ۔ ٹکٹ کیلئے سیاسی قائدین کی انحراف کی روایت اب ملک کی ہر ریاست میں اور ہر انتخاب میں عام ہوتی چلی گئی ہے ۔ یہ روایت بن گئی ہے کہ جو قائدین اقتدار کے گلیاروں میں وقت گذارنے کو ترجیح دیتے ہیں ان کیلئے اب سیاسی نظریات یا پروگرامس یا پارٹیوں سے وابستگی کوئی معنی اور اہمیت نہیں رکھنے لگی ہے ۔ ان کیلئے صرف ذاتی اقتدار یا کامیابی ہی اہمیت کی حامل رہ گئی ہے اور اخلاقیات اور اقتدار کی پرواہ کرنے کوئی تیار نہیں ہے ۔ ذاتی مفاد ہی سب کیلئے مقدم ہوگیا ہے ۔ نظریات کا تو کسی کو احساس تک نہیں رہ گیا ہے ۔
انتخابات میں مقابلہ کیلئے ٹکٹ پانے کیلئے ایک سے دوسری جماعت میں شمولیت اور پھر دوسری سے تیسری جماعت تک کا سفر اب سیاسی قائدین کیلئے عام ہوگیا ہے ۔ ہر کوئی محض اقتدار پر فائز رہنا چاہتا ہے یا اقتدار سے جڑا رہنا چاہتا ہے ۔عوامی خدمت کا جذبہ کسی میں دکھائی نہیں دیتا ۔ کوئی نہیں چاہتا کہ وہ اقتدار سے باہر رہتے ہوئے بھی عوام کی خدمت کرے ۔انہیں صرف اور صرف اپنے اقتدار کی فکر لاحق ہوگئی ہے ۔ عوام کی خدمت کے جو دعوے ہیں وہ محض دکھاوے کے ہیں اور کھوکھلے دعوے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی جہاں تک بات ہے تو عوام کی تائید سے اقتدار پر رہنا یا پھر اپوزیشن میں رہنا ان کی اپنی مجبوری ہے ۔و ہ اپنی پارٹیوں کو ختم نہیںکرسکتے ۔ تاہم سیاسی قائدین اپنی شناخت کی پرواہ کئے بغیر ‘ نظریات کی پرواہ کئے بغیر اور عوام سے کئے گئے اپنے وعدوں کو پیش نظر رکھے بغیر ایک سے دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ صرف انہیں کو اقتدار پر فائز رہنے کا حق ہے اور کسی دوسرے کو موقع دئے جانے کے وہ قائل نہیں ہیں۔ وہ اپنی کامیابی سے ناامید ہونے کی صورت میں دوسروں کی کامیابی کو بھی سبوتاج کرنے سے گریز نہیں کر رہے ہیں اور یہ ہندوستانی جمہوریت اور ہندوستانی سیاست کا ایک منفی ترین پہلو ابھر کر سامنے آیا ہے ۔ مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ کسی بھی لیڈر یا امیدوار کو عوام میں اپنے امیج کی کوئی فکر نہیں ہے ۔ وہ عوامی شبیہہ کی بہتری کیلئے فکرمند نہیں ہیں۔
ماضی میں دیکھا جاتا تھا کہ کبھی کبھی کوئی لیڈر ایک سے دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرتا تھا اور وہ بھی طویل وقت تک پارٹی میں ناراضگی کا اظہار کرنے کے بعد اصولوں یا پروگرامس کی بنیاد پر یا کسی فیصلے کی بنیاد پر ایسا کیا جاتا تھا تاہم اب یہ روایت بن گئی ہے ۔ انتخابات کا موسم آتے ہی انحراف عام بات ہوگئی ہے ۔ اس روایت کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔ ملک کے عوام کو چاہئے کہ وہ جمہوریت کو مستحکم کرنے اور اس طرح کی منفی روایت کو ختم کرنے کیلئے اپنے ووٹ سے اپنی رائے کا اظہار کریں۔ موقع پرستی کی سیاست کی حوصلہ افزائی نہیں کی جانی چاہئے ۔ سیاسی اور نظریاتی وابستگی کو اہمیت دینے کی ضرورت ہے ۔