لب پہ ہر معصوم کے ہے یا الٰہی خیر ہو
آج پھر جیتے ہیں بڑی تیاری کے ساتھ
ہریانہ اور جموںو کشمیر میں اسمبلی انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوچکا ہے ۔ ہریانہ میں بی جے پی نے تمام توقعات کے برخلاف اپنی کامیابی کی ہیٹ ٹرک مکمل کرلی ہے ۔ لگاتار تیسری معیاد کیلئے ریاست میں بی جے پی کو اقتدار حاصل ہوا ہے جبکہ جموں و کشمیر میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس اتحاد کو اقتدار حاصل ہوا ہے ۔ ایک طرح سے یہ انتخابی مقابلہ کانگریس حلیفوں اور بی جے پی کے درمیان ٹائی رہا ہے ۔ ایک ریاست میں بی جے پی کو اقتدار حاصل ہوا ہے تو مرکزی زیر انتظام علاقہ جموں و کشمیر میں تمام تر کاوشوں اور حلقہ جات کی از سر نو حد بندی کے باوجود نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے اقتدار حاصل کرلیا ہے ۔ یہ کامیابی دونوںہی گروپس کیلئے تسلی کا باعث کہی جاسکتی ہے ۔ جہاں تک ہریانہ کا سوال ہے تو بی جے پی کیلئے یہ کامیابی غیر متوقع ہی کہی جاسکتی ہے کیونکہ جو آثار و قرائن رہے تھے وہ بی جے پی کے خلاف تھے ۔ حکومت سے عوام کی ناراضگی اور بیزاری واضح دکھائی دے رہی تھی ۔ کانگریس پارٹی اسی ناراضگی اور بیزاری سے فائدہ حاصل کرنا چاہتی تھی اور اس کی کوشش کامیاب بھی ہوتی اگر انتخابی عمل میںعام آدمی پارٹی نے اتحادی نظریہ کے تحت کام کیا ہوتا ۔ کانگریس اور عام آدمی پارٹی حالانکہ انڈیا اتحاد کی حلیف جماعتیں ہیں لیکن انہوں نے ہریانہ میں کوئی مفاہمت نہیں کی تھی ۔ کوشش ضرور ہوئی تھی اور ابتدائی مراحل میں یہ کہا بھی جا رہا تھا کہ عام آدمی پارٹی اور کانگریس میںاتحاد بھی ہوسکتا ہے تاہم آحری مراحل میں ایسا ممکن نہیںہوپایا اور اس کا سیاسی خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے ۔ کانگریس کو ریاست میں اقتدار حاصل نہیںہو پایا ہے ۔ حالانکہ کانگریس نے اپنے بل پر بہت زبردست مقابلہ کیا تھا اور عوامی مسائل کو اٹھاتے ہوئے انتخاب لڑا تھا تاہم عام آدمی پارٹی کا عنصر پارٹی کیلئے نقصان کا باعث بنا ہے ۔ عام آدمی پارٹی نے خود بھی ایک بھی نشست پر کامیابی حاصل نہیں کی اور کانگریس کو بھی اقتدار تک پہونچنے سے روک دیا ۔ یہ عام آدمی پارٹی کا غلط فیصلہ رہا تھا ۔ اس کے نتیجہ میں بی جے پی کو بڑا فائدہ ہوا اور ایک ریاست پر پورے پانچ سال کیلئے اسے اقتدار مل گیا ۔
کانگریس کی صفوں میں اختلافات کی وجہ سے بھی پارٹی کو قدرے مشکلات پیش آئیں۔ بھوپیندر سنگھ ہوڈا ہوں یا پھر کماری شیلجا ہوں ان کے مابین جو ناراضگی کی کیفیت رہی تھی وہ بھی رائے دہندوں پر اثر انداز ہوئی تھی ۔ رائے دہندوں کے سامنے حالانکہ ان دونوں قائدین کو راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی نے ایک اسٹیج پر اکٹھا بھی کیا تھا اور آپس میں اتحاد سے کام کرنے کا مشورہ بھی دیا تھا تاہم یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ان دونوں کے اختلافات کی وجہ سے ہریانہ میں پارٹی پورے پانچ سال کیلئے اقتدار سے باہر ہوگئی ہے ۔ جو علاقائی جماعت جن نائک جنتا پارٹی تھی وہ بھی سیاسی طور پر اب ختم ہوگئی ہے ۔ اسے بھی ایک بھی نشست پر کامیابی حاصل نہیں ہوپائی ہے اور انڈین نیشنل لوک دل بھی محدود ہوکر رہ گئی ہے ۔ کانگریس اور بی جے پی کی سیاست ہریانہ کا مستقبل طئے کرے گی ۔ تاہم اروند کجریوال اپنے فیصلوں کی وجہ سے ایک بار پھر بی جے پی کیلئے ایک ریاست کو سیاسی تحفہ میں دینے کی وجہ بن گئے ہیں۔ اس صورتحال کو کانگریس کو اپنے مستقبل کے منصوبوں میں پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ اتحاد میں شامل رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے خلاف انتخابات میں مقابلہ کرنا کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہوسکتا ۔ اس کے نتیجہ میں رائے دہندوں میں الجھن اور غیریقینی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور یہی صورتحال رہی ہے جس کا بی جے پی نے فائدہ حاصل کرلیا ہے اور کانگریس کو اس کا سیاسی نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے ۔
جہاں تک جموں و کشمیر کی بات ہے تو مرکزی حکومت کی تمام تر کاوشوں کے باوجود ریاست کے عوام نے بی جے پی کو مسترد کردیا ہے ۔ حالانکہ امیت شاہ اور دوسرے کئی قائدین لگاتار جموںو کشمیر کے دورے کر رہے تھے ۔ رائے دہندوں کو رجھانے و لبھانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی تھی ۔ حلقہ جات کی از سر نو حد بندی کرتے ہوئے بھی بی جے پی نے ایک بساط بچھائی تھی جو کامیاب نہیں ہو پا ئی ہے ۔ ان نتائج کو پیش نظر رکھتے ہوئے کانگریس کو اپنے مستقبل کیلئے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے ۔ مہاراشٹرا اور جھارکھنڈ کیلئے اتحاد کی سیاست کو یقینی بنانے کیلئے ہر ممکن کوشش کی جانی چاہئے تاکہ ہریانہ جیسے نقصان سے بچا جاسکے ۔