غم کی دنیا سے مری خوب شناسائی ہے
درد و احساس کی دولت مرے ہاتھ آئی ہے
ہریانہ میں انتخابی عمل شدت اختیار کرگیا ہے ۔ انتخابی مہم کا اختتام ہونے والا ہے اور کانگریس و بی جے پی کی جانب سے ریاست میں اقتدار کیلئے جارحانہ مہم چلائی جا رہی ہے ۔ بی جے پی کی جانب سے مرکزی قائدین اور وزراء کا ایک تانتا بندھا ہوا ہے جو ہریانہ پہونچ کر پارٹی کے حق میں مہم چلانے میں مصروف ہے ۔ دوسری جانب کانگریس قائدین بھی اپنی جانب سے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ ریاستی قائدین کے علاوہ قائداپوزیشن راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی بھی کانگریس کی انتخابی مہم میں حصہ لے رہے ہیں۔ قومی سطح کے قائدین جموں و کشمیر بھی جا رہے ہیں اور ہریانہ کے بھی دورے ہو رہے ہیں۔ ریاست میں بی جے پی گذشتہ ایک دہے سے اقتدار میں ہے جبکہ کانگریس ایک دہے بعد واپسی کیلئے جدوجہد کر رہی ہے ۔ اب تک جو سروے سامنے آئے ہیں اور عوام کا جو موڈ دکھائی دیا ہے اس کے مطابق ریاست میں کانگریس کیلئے ایک بہتر اور اچھا موقع ہے ۔ وہ عوام کے مسائل کو اٹھانے میں مصروف ہے اور لگاتار انہیںراحت پہونچانے کے وعدے کئے جا رہے ہیں۔ کانگریس کارکنوں اور قائدین میں بھی جوش و خروش دکھائی دے رہا ہے جبکہ عوام بھی بی جے پی سے اکتا گئے ہیں۔ وہ ایک دہے میں بی جے پی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں اور متبادل کے طور پر کانگریس کی جانب دیکھ رہے ہیں ۔ حالانکہ بی جے پی و کانگریس کے علاوہ ریاست میں جن نائک جنتا پارٹی اور عام آدمی پارٹی بھی مقابلہ میں ہیں لیکن اقتدار کی دعویداری کانگریس اور بی جے پی کے درمیان ہی دکھائی دے رہی ہے ۔ علاقائی جماعتوں کی اہمیت اور ان کے ووٹ شئیر سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور نہ انہیں نظر انداز کیا جاسکتا ہے ۔ ایسے میں کانگریس کیلئے ضروری ہے کہ وہ صورتحال کے مطابق عوام کے موڈ کو تبدیل ہونے کا موقع فراہم نہ کرے اور علاقائی جماعتوں کی جانب سے ووٹ بینک متاثر ہونے کے امکانات کو دور کرنے کیلئے لمحہ آخر تک جدوجہد کرتی رہے ۔ پارٹی کیلئے ریاست میں ایک اچھا موقع دکھائی دے رہا ہے ۔ اس موقع کو کامیاب بنانے کیلئے لمحہ آخر تک جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے ۔
ریاست میں بی جے پی جس صورتحال سے دوچار ہوئی ہے اس سے سبھی واقف ہیں۔ ریاست کے عوام کے سامنے پارٹی قائدین کے کئی تماشے ہوئے ہیں۔ کئی موجودہ ارکان اسمبلی اور وزراء تک کو ٹکٹ نہیں ملا ہے ۔ یہ لوگ خاموش بیٹھنے کی بجائے مخالفت میں سامنے آگئے ہیں۔ کئی باغی قائدین بحیثیت آزاد امیدوار مقابلہ کر رہے ہیں تو کچھ قائدین کانگریس میں اور کچھ دوسری جماعتوں میںشامل ہوگئے ہیں۔ بی جے پی کو اس صورتحال سے نمٹنے میں مشکل پیش آئی تھی ۔ اس نے یہی صورتحال کانگریس کیلئے بھی پیدا کرنے کی کوشش کی تھی اور سینئر لیڈر کماری شیلجا کو راغب کرنے سازش کی گئی ۔ بی جے پی کی یہ کوشش ناکام ہوگئی اور کماری شیلجا اب بھی کانگریس میں موجود ہیں اور پارٹی کی انتخابی مہم کے دوران انہوں نے گاندھی قائدین کے ساتھ اسٹیج بھی شئیر کیا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کانگریس کے تمام قائدین میں اتفاق اور اتحاد کا مظاہرہ کیا جائے ۔ عوام کے درمیان یہ پیام دیا جانا ضروری ہے کہ پارٹی میں کوئی اختلافات نہیں ہیں اور اقتدار ملنے کی صورت میں پارٹی عوام کی بہتری اور ان کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنے میں مسائل اور مشکلات کا شکار نہیںہوگی ۔ اب جبکہ رائے دہی کیلئے محض تین دن باقی رہ گئے ہیں ایسے میں اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ بہت زیادہ ضروری اور اہمیت کا حامل ہے ۔ اس کو گنوانے کی غلطی نہیں کی جانی چاہئے ۔ لمحہ آخر تک پارٹی کے حق میں عوام کے موڈ کو برقرار رکھنے کیلئے ہر ممکن کوشش کی جانی چاہئے ۔
بی جے پی اپنے طور پر رائے دہندوں پر اثر انداز ہونے کیلئے کوشاں ہے ۔ کئی قائدین انتخابات کے موسم میں غیر ذمہ دارانہ بیان بازیاں کرتے ہوئے عوام کی توجہ بنیادی مسائل سے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن کانگریس عوامی مسائل کو پیش کرتے ہوئے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش میں مصروف ہے ۔ ایسے میں علاقائی جماعتوں کے حربوں کا شکار ہونے کا عوام کے سامنے امکان برقرار نہیں رکھا جانا چاہئے ۔ عوام کے موڈ کے مطابق اور انتخابی نتائج کی اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے لمحہ آخر تک جدوجہد کی جانی چاہئے ۔ چوکسی برقرار رکھتے ہوئے عوامی ہمدردی کو ووٹوں میں تبدیل کرنے کی حکمت عملی اختیار کی جانی چاہئے ۔