قاری محمد عبد المقتدر
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے اپنی بات اپنے نبی کی زبانی کہلوائی کہ ’’محبتوں کے دعوے کو اگر سچا کردکھانا ہے تو اے لوگو! تم پہلے میری پیروی کرکے دکھاؤ، اتباع نبی کے ذریعہ ثبوت، دلیل اور حجت قائم کرو کہ یقیناً تم کو اللہ تعالی سے محبت ہے‘‘۔ اگر تم نے اتباع رسولﷺ میں اپنی زندگی گزاری، اپنے کام انجام دیئے، خواہ شادی بیاہ ہو، معاملات ہوں، معاشرت ہو، عبادات ہوں، ملاقات ہو، رفتار و گفتار ہو، بہرحال ہر کام میں جو تم کو روز مرہ کرنے پڑتے ہیں، تم نے ہر کام میں پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی تو تمارا اللہ سے محبت کا دعویٰ صحیح ہے، ورنہ نہیں۔
اللہ تعالی کی محبت کے دعویٰ کا ثبوت اطاعت نبیﷺ کیوں ہے؟ یہ سوال کسی کے بھی دل میں پیدا ہو سکتا ہے۔ اس کا بہت آسان اور مختصر سا جواب یہ ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم خود اللہ تعالی نے دیا ہے، لہذا اللہ کے حکم کو پورا کئے بغیر اللہ سے محبت کا دعویٰ جھوٹ اور فریب ہے‘‘۔ کیونکہ کسی کا بھی چاہنے والا جب تک اپنے چہیتے اور محبوب کا حکم اور اشاروں کا پابند نہ ہوگا، وہ چاہت کے دعویٰ میں سچا نہیں ہو سکتا، یعنی ’’محبت تجھ کو آدابِ محبت خود سکھادے گی‘‘۔ ایک عربی شعر کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’تم نافرمانی کرتے ہو اللہ کی اور پھر تم ہی ظاہر کرتے ہو اس کی محبت کو اور یہ بات میری عمر کی قسم! ساری باتوں میں سب سے زیادہ انوکھی اور محال ہے۔ کیونکہ اگر تمہاری محبت سچی ہوتی تو یقیناً تم اللہ کی ضرور اطاعت کرتے اور اس کا حکم مانتے۔ بے شک سچا چاہنے والا اپنے محبوب کا کامل مطیع اور فرماں بردار ہوتا ہے‘‘۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے متعدد مقامات پر اس بات کی صراحت اور وضاحت فرمائی ہے کہ ’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اور فرماں برداری کرتے ہیں، اللہ تعالی بہت جلد ان پر مہربانی فرمائے گا‘‘۔ ایک جگہ ارشاد باری عز اسمہ ہے کہ ’’اور تم اللہ کی اور رسول اللہ کی اطاعت کرو، تاکہ تم پر رحم و کرم کیا جائے‘‘۔ اور ایک جگہ تو بہت صاف صاف ارشاد ہے کہ ’’جس نے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی‘‘۔ غرض یہ مضمون قرآن مجید میں کئی جگہوں پر بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور اطاعت ہر کام میں ضروری ہے اور اسی کے ساتھ اللہ تعالی کی طرف سے محبت و رحمت اور الطاف و اکرام کے وعدے ہیں۔ بقول شاعر:
ہر ادا میں پیروی آقا کی ہے لازم جناب
پھر بھی ہم میں ہے کہاں اُسوہ مرے سرکاؐر کا
آج ہر جگہ مسلمانوں کی زبانوں پر شکوے شکایات کا بازار گرم ہے کہ ’’ہم پر ظلم و ستم ہو رہا ہے، ہمارا پرسان حال کون ہے؟، ہمارا داد رس کون ہے؟، ہم کو مظلوم اور بے بس و بیکس کردیا گیا۔ ہماری مدد نہیں ہوتی، ہماری عزت و عصمت سے کھیلا اور تار تار کیا جا رہا ہے۔ ہم بے یار و مددگار ہیں۔ ہمارا مالی اور جانی ہر طرح کا نقصان ہو رہا ہے، مگر ہمارا کوئی پرسان حال نہیں۔ بعض نادان یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ ’’کیا اللہ تعالی کو ہمارے اس حال کی خبر نہیں؟‘‘ (نعوذ باللہ!)۔
یہ یقینی امر ہے کہ جب تک ہم مسلمان متحد و متفق ہوکر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرماں برداری کو اپنا نصب العین، لائحہ عمل اور مقصد حیات نہیں بنالیں گے، اس وقت تک اللہ تعالی ہم سے محبت اور ہماری طرف توجہ نہیں فرمائے گا، تو پھر ہماری مدد ہمارے دشمنوں کے خلاف کیسے ہوگی؟۔ بلکہ ہم مسلمانوں نے اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے خدائے عزوجل کے عذاب کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ جب کہ اللہ تعالی کی فرماں برداری اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی، خدائے تعالی کی محبت و نصرت اور انعامات الہیہ کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے اور خدا کی نافرمانی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدم پیروی، خدا کے غیظ و غضب کو جوش میں لاتی ہے اور عذاب الہی کو متوجہ کرتی ہے۔
خدائے تعالی کے احکامات سے کھلواڑ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں سے بے رخی، قہر الہی نازل ہونے کا ذریعہ ہیں۔ اگر ہم سلامتی اور عافیت چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے اتباع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اختیار کرنی ہوگی، جن کی اتباع پر اللہ تعالی کی محبت کا انحصار ہے اور نصرت الہی و تائید الہی جُڑی ہوئی ہے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو اللہ تعالی کی محبت اللہ تعالی سے مانگنے کا طریقہ سکھایا، جس کا ترجمہ یہ ہے: ’’اے اللہ! ہم آپ سے آپ کی محبت مانگتے ہیں اور آپ کے رسول ﷺکی محبت چاہتے ہیں اور اس شخص کی محبت چاہتے ہیں، جو آپ سے محبت رکھے اور اس عمل کی محبت مانگتے ہیں، جس سے آپ کی محبت حاصل ہو‘‘۔
ایک دعا یہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو سکھائی، جس کا ترجمہ یہ ہے: ’’اے اللہ! اپنی محبت ہمارے اندر ہمارے اہل و عیال اور ٹھنڈے پانی کی محبت سے زیادہ ڈال دے‘‘۔ہر آن اور ہر لمحہ ہر انسان کو اللہ تعالی کی محبت کی شدید ضرورت ہے۔ انسانوں کے سارے کام، سارے مسائل اور ساری ضروریات اللہ ہی سے حل ہوتی ہیں۔ ان ساری چیزوں کا تعلق اللہ سے ہے، اللہ تعالی جو چاہتا ہے، جتنا چاہتا ہے، جیسا چاہتا ہے، جس کے ساتھ چاہتا ہے وہ کرگزرتا ہے، یعنی جس کا تعلق اللہ تعالی سے جتنا مضبوط اور مستحکم ہوگا، جس کو اللہ تعالی سے جتنی محبت ہوگی، اللہ پاک اس کی طرف اتنی ہی توجہ فرمائے گا۔ جب اللہ تعالی سے محبت کیلئے اور رب العالمین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے کے لئے صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے اتباع نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم۔