ہزاروں خواتین کا استحصال

   

یہی تاریخ ہے قانون ہے حق کی روایت ہے
زبانیں روک دی جائیں تو خنجر بات کرتے ہیں
انتخابی مہم کے دوران سماج کے مختلف طبقات کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے راجستھان میں ایک تقریر کے دوران خواتین کے منگل سوتر کا حوالہ دیا تھا ۔ ان کا ادعا تھا کہ کانگریس پارٹی ملک کی خواتین سے منگل سوتر تک چھین لے گی اور انہیں مسلمانوں میں تقسیم کردے گی ۔ حالانکہ ان کی اس تقریر پر کئی گوشوں سے موثر جواب بھی دئے گئے ہیں۔ تاہم اب کرناٹک میں نریندر مودی کی پارٹی بی جے پی کی حلیف جماعت جے ڈی ایس کے ایک لیڈر اور ہاسن لوک سبھا حلقہ کے این ڈی اے امیدوار پراجول ریونا کے خلاف ہزاروں خواتین کے جنسی استحصال کے الزامات سامنے آئے ہیں۔ پراجول موجودہ رکن پارلیمنٹ بھی تھے ۔ وہ ان الزاماتی کے سامنے آتے ہی ملک سے فرار بھی ہوچکے ہیں۔ پراجول ریونا کی جانب سے خواتین کے استحصال کی ہزاروں ویڈیوز منظر عام پر آنے کے دعوے کئے جا رہے ہیں۔ ایک بی جے پی لیڈر نے تو یہ بھی ادعا کیا کہ انہوں نے پارٹی قیادت کو ماہ ڈسمبر ہی میں مطلع کردیا تھا کہ پراجول کے جملہ 3000 مخرب اخلاق ویڈیوز پر مشتمل ڈرائیو ان کو دستیاب ہوئی ہے ۔ اس کے باوجود بی جے پی نے محض سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے مقصد سے جے ڈی ایس کے ساتھ اتحاد کیا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان ہزارو ں خواتین کی عزت و عفت کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ کیا ان کے منگل سوتر کا وزیر اعظم مودی کو خیال نہیں ہے ؟ ۔ ماہ ڈسمبر ہی میں خود بی جے پی لیڈر کی جانب سے اس طرح کی اطلاع دئے جانے کے باوجود جے ڈی ایس سے اتحاد کیوں کیا گیا ؟ اس کا بی جے پی کو کرناٹک ہی نہیں بلکہ سارے ملک کی خواتین کے سامنے جواب دینا ہوگا ۔ حالانکہ کرناٹک کی کانگریس حکومت نے اس سارے معاملے کی تحقیقات کیلئے ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم بھی تشکیل دیدی ہے تاہم خود بی جے پی اور جے ڈی ایس اس مسئلہ سے خود کو الگ نہیں کرسکتے ۔ انہیں ریاست کے عوام کو اور خاص طور پر خواتین کو جواب دینا چاہئے کہ انہوں نے خواتین کی عزت و عفت کے ساتھ کھلواڑ کرنے اور ان کے ویڈیوز بناتے ہوئے ان کا استحصال کرنے پر ان کا موقف کیا ہے۔
بی جے پی کیلئے خاص طور پر اس میں زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ محض مرکز میں اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لالچ میں اپنے ہی لیڈر کی دی گئی اطلاع کے باوجود اس پارٹی سے اتحاد کرنا بی جے پی کی اخلاقی پستی کو ظاہر کرتا ہے ۔ بی جے پی قائدین ملک بھر میں گھومتے ہوئے فرضی کہانیاں سناتے ہیں اور خواتین کی عزت و عفت کی بات تو دور ہے ان کے منگل سوتر کے تعلق سے تک بھی نامناسب ریمارکس کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ منگل سوتر کی خواتین کو دہائی دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ تاہم اب ایک دو نہیں بلکہ ہزاروں خواتین کی عزت و ناموس کا سوال پیدا ہوگیا ہے ۔ بی جے پی کو یہ جواب دینا چاہئے کہ ساری اطلاع رکھنے کے باوجود جے ڈی ایس سے اتحاد کیوں کیا گیا ؟ ۔ کیا بی جے پی کیلئے خواتین کی عزت و ناموس سے زیادہ اپنا سیاسی فائدہ اہم ہے ؟ ۔ کیا نریندر مودی یا امیت شاہ کیلئے خواتین کے احترام سے زیادہ اپنا اقتدار ہے ؟ ۔ اگر نہیں تو پھر اس جماعت کے ساتھ اتحاد کیوں کیا گیا ۔ اگر سابق میں کر بھی لیا گیا تو کیا اب بی جے پی آئندہ مراحل کیلئے یہ اعلان کرے گی کہ اس کا جے ڈی ایس کے ساتھ اب کوئی اتحاد نہیں رہ گیا ہے ؟ ۔ بی جے پی یا اس کے قائدین اگر واقعی خواتین کی عزت و عفت کا احترام کرتے ہیں اور اسے اہمیت دیتے ہیں تو انہیں کم از کم اب جے ڈی ایس کے ساتھ اپنے اتحاد کو ختم کرنے کا اعلان کرنے کی ضرورت ہے اور عوام سے یہ اتحاد کرنے پر معذرت خواہی بھی کی جانی چاہئے ۔
تاہم سیاسی فائدہ کیلئے اخلاقی پستی بی جے پی کی عادت ہے ۔ بی جے پی کے کئی ذمہ دار قائدین کے خلاف خود بھی خواتین کے ساتھ جنسی استحصال کے الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں۔ اس کے ایک رکن اسمبلی کو اترپردیش میں گرفتار کرکے جیل بھیجا گیا تھا ۔ اس کے علاوہ ایک مرکزی وزیر پر بھی ایک قانون کی طالبہ کے جنسی استحصال کا الزام تھا ۔ ان سب کے باوجود بی جے پی سیاسی فائدہ حاصل کرنے اس طرح کی باتیںکرتی ہے اور کرناٹک میں خواتین کے استحصال کا معاملہ اس کیلئے ایک امتحان بن گیا ہے ۔ ملک کی خواتین کو اس معاملے کا نوٹ لیتے ہوئے اپنے ووٹ کا استعمال کرنا چاہئے ۔