نئی دہلی۔ جماعت اسلامی ہند نے ہفتہ کے روزسپریم کورٹ کی جانب سے فراہم کردہ عارضی راحت کا خیرمقدم کیاجو اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف تھا جس میں ہلدوانی میں ریلویز کے زیر دعوی 29ایکڑ اراضی پر غیر مجاز قبضوں کی برخواستگی پر مشتمل تھا۔
تنظیم کے ہیڈ کوارٹرس پر رپورٹرس سے بات کرتے ہوئے جماعت کے قومی نائب صدر محمد سلیم انجینئر نے الزام لگایاکہ سیاسی فائدہ کے لئے ہلدوانی کیس کو فرقہ وارنہ رنگ دینے کی کوششیں کی گئی ہیں۔
انہوں نے دعوی کیاکہ”ایک کوشش یہ کی گئی ہے کہ ایک کمیونٹی کے لوگوں کو غیرمجاز قابض کے طورپر پیش کیاجائے اس کے بعد انہیں ہٹادیاجائے جہاں پر دونوں مسلمان اورہندو ہلدوانی کی متنازعہ اراضی پر ایک ساتھ رہتے ہیں“۔
وہاں پر رہنے والے لوگوں کے دستاویزات ریلویز کی آمد سے قبل کے ہیں اور عدالت عظمیٰ نے انہیں اپنے حق کے لئے دعوی پیش کرنے کا ایک موقع دیاہے۔
جماعت کی ذیلی تنظیم اسوسیشن برائے پروٹوکشن آف سیول رائٹس کے سکریٹری ندیم خان نے الزام لگایا کہ آسام ہو ہلدوانی‘ ملک میں سیاسی آبادی کو تبدیل کرنے کے لئے تباہ کن سیاست چل رہی ہے۔
ریلویز نے 4365خاندانوں کی نشاندہی کی ہے جس کے متعلق کہاجارہا ہے کہ انہوں نے اس اراضی پر قبضہ کیاہے۔اس بات پرزوردیتے ہوئے کہاکہ یہاں کے حقیقی مالک ہیں مذکورہ مکینوں نے ہلدوانی میں احتجاج کیا۔
تقریبا50,000کے قریب جس میں اکثریت مسلمانوں کی ہے‘ 4000سے زائد خاندانوں پرمشتمل لوگ متنازعہ اراضی پر مقیم ہیں۔
یہ دیکھتے ہوئے کہ بہت سے مکینوں نے دعوی کیاہے کہ وہ 50سالوں سے زیادہ عرصہ سے وہاں مقیم ہیں‘ جسٹس ایس کے کول اور اے ایس اوکا نے کی بنچ نے نوٹ کیاکہ مسئلہ کا ایک”انسانی زوایہ“ہے اور حکام کو”علمی راستہ تلاش کرنا ہوگا“۔
عدالت عظمیٰ نے ریلوے اور اتراکھنڈحکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے تجاوزات ہٹانے کے ہائی کورٹ کے حکم کو چیالنج کرنے والی عراضیوں کے ایک بنچ پر ان سے جواب طلب کیاہے۔