اتراکھنڈ میں گلیشیئر پھٹ پڑنے کا واقعہ اور بعد ازاں ہمالیہ کی پہاڑیوں پر دکھائی دینے والے گلیشیئر پگھلنے کی تصاویر تشویشناک ہیں یہ واقعہ ماحولیاتی آلودگی یا حدت کی شدت سے پیدا ہونے والی امکانی صورتحال کی جانب اشارہ کرتا ہے ۔ ہمالیہ کی چوٹیاں اگر پگھل کر سیلاب بن جائیں تو یہ انسانی زندگیوں اور کئی علاقوں کے لیے شدید نقصان کا موجب ہوگا ۔ برفانی چوٹیاں پگھل کر پتھر اور سیلاب یا کیچڑ بن کر بہنے لگیں گے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جیسا جیسا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے ۔ برف پگھلنے یا برف کی چٹانیں ٹوٹنے کے واقعات ہوں گے ۔ اتوار کو اتراکھنڈ کے علاقہ چمولی میں گلیشئیر پھٹ پڑنے کے واقعہ میں سینکڑوں افراد لاپتہ اور مرنے والوں کی تعداد 40 ہوگئی ۔ ہمالیہ کی چوٹیوں پر جمع برف کا پگھلنا اور اس کے حتمی وجوہات کا پتہ چلانا آسان کام نہیں ہے ۔ عام بات یہ کہہ جارہی ہے کہ درجہ حرارت میں اضافہ سے برف یا برف کی چٹانوں کے اندر پانی جمع ہوتا ہے اور یہ پانی برف کو توڑ کر پہاڑیوں سے نیچے گرے گا اور جب کوئی برفانی تودہ گرتا ہے تو اس کے ساتھ بڑے بڑے پتھر اور مٹی بھی نیچے گرجاتی ہے ۔ ہمالیہ کے ان علاقوں میں اس طرح کے واقعات نئے نہیں ہیں ۔ ماضی میں بھی ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں ۔ اس کے باوجود حکومتوں نے کوئی احتیاطی انتظامات نہیں کئے ۔ نشیبی علاقوں میں بستیوں کے قیام کو روکا نہیں گیا ۔ ماحولیات میں موسم کا اہم رول ہوتا ہے لیکن اب موسم میں جو تبدیلیاں آرہی ہیں ۔ اس کی وجہ آلودگی اور گرمی میں اضافہ ہے ۔ ساری دنیا کے ماہرین ماحولیات میں تبدیلی پر تشویش کا اظہار کرتے آرہے ہیں ۔ کئی ملکوں نے فضائی آلودگی اور صنعتوں سے نکلنے والے دھویں کو کم کرنے کے لیے کئی پالیسیاں بنائی ہیں اور ان پر عمل آوری کے لیے ہر سال چوٹی کانفرنس میں زور دیا جاتا ہے ۔ جن ملکوں میں ماحولیاتی آلودگی زیادہ ہوتی ہے ان میں ہندوستان بھی شامل ہے ۔ موٹر گاڑیوں میں اضافہ ، دھویں سے پیدا ہونے والی آلودگی سے ہوا کی کیفیت تبدیل ہورہی ہے ۔ عالمی حدت میں اضافہ کی وجہ سے ہی ہندوکش ہمالیہ کے علاقے میں تیزی سے گلیشئیر پگھلنا خطرناک ہے کیوں کہ جب گرمی میں اضافہ ہوجائے تو برفانی تودے پگھل کر جھیل بن جاتے ہیں جو ایسی جھلیں خطرناک حد تک پھیل رہی ہے اور نئی جھیلیں بن رہی ہیں ۔ یہ جب پھٹ پڑتے ہیں تو انفراسٹرکچر تباہ ہونے کے ساتھ انسانی زندگیاں بھی سیلاب میں بہہ جاتی ہیں ۔ آتش فشاں پہاڑ کا پھٹنا جتنا خطرناک ہوتا ہے اسی طرح برفانی پہاڑ کا پگھلنا بھی خطرناک ہے ۔ زمینی تودے کھسکنے کے اکا دکا واقعات کو نوٹ کر کے ماہرین اس پر خاص توجہ نہیں دیتے لیکن اب حکومت کو اس سلسلہ میں سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا ۔ چمولی گاؤں میں جو گلیشئیر پھٹ پڑا تھا اس کے بعد آنے والا سیلاب سب نے دیکھا ہے ۔ یہ اس لیے ہوا کیوں کہ ایک چٹان کا حصہ برف کے ساتھ اونچائی سے نیچے کی طرف گر گیا ۔ جس کے نتیجہ میں سیلاب آگیا ۔ یہاں سال 2013 میں بھی سیلاب سے 6000 افراد ہلاک ہوئے تھے ۔ چٹانوں سے نکلنے والی گرمی ان کے اوپر جمع ہونے والی برف کو پگھلاتی ہے ۔ ان دنوں آہستہ آہستہ پہاڑی چٹانوں میں درجہ حرارت کا اضافہ ہونا خطرے سے خالی نہیں ہے اگر مرکز اور ریاستی حکومت نے اس پر توجہ نہیں دی تو آنے والے دنوں میں اس طرح کے گلیشیئر پھٹ پڑیں تو کئی بستیاں ملبہ میں تبدیل ہوجاسکتی ہیں ۔ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے لوک سبھا میں یہ تسلیم کیا کہ سٹیلائٹ ڈاٹا سے پتہ چلتا ہے کہ گلیشئیر پھٹ پڑنے کے امکانات موجود ہیں ۔ جب حکومت کی سطح پر اس واقعہ کا سنجیدگی سے نوٹ لیا جارہا ہے تو اس سے بچنے یا اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے ۔ ساری دنیا کی حکومتوں کو بھی عالمی ماحولیاتی حدت پر اب پہلے سے زیادہ توجہ دینی ہوگی ۔ مسائل کو تباہ کن ہونے سے قبل ہی حل کرلینا وقت کا تقاضہ ہے ۔۔
