راہِ خوشی سے ہوکے نئے غم گزر گئے
میری نظر سے چھپ کے وہ جسدم گزر گئے
ملک کی خوبصورت اور پہاڑی ریاست ہماچل پردیش ان دنوں قدرت کے قہر کا سامنا کر رہی ہے ۔ ریاست میں سیلاب اور طوفانی بارش کے نتیجہ میں اب تک 69 افراد اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں۔ درجنوں افراد لاپتہ بتائے گئے ہیں جبکہ 700 کروڑ روپئے تک کا مالی نقصان ہوا ہے ۔ بارش کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اور آئندہ چار دن تک بارش کی پیش قیاسی کی گئی ہے ۔ اس کے نتیجہ میں بھی مزید جانی و مالی نقصانات کے اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ سیلاب اور شدید بارش آفات سماوی میں شمار کئے جاتے ہیں اور ان پر کسی کا کنٹرول نہیں ہوتا ۔ تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ اس صورتحال کو جو ہر سال پیش آتی ہے سامنے رکھتے ہوئے اس کے نقصانات کو کم سے کم کرنے کیلئے کوشش کی جائے ۔ ایسے منصوبے بنائے جائیں جن کے نتیجہ میں جانی و مالی نقصان کو کم کیا جاسکے ۔ ایسے اقدامات کئے جائیں جن کے نتیجہ میں عوام کو پریشانیاں اور مسائل کم درپیش ہوسکیں۔ ایسا کرنے کیلئے مرکزی اور ریاستی حکومت کے مابین بہتر تال میل اور مرکز کے فراخدلانہ رول کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس کیلئے سیاسی وابستگی کو پیش نظر نہیں رکھا جانا چاہئے ۔ ریاست میں کانگریس کی حکومت ہے جبکہ مرکز میں بی جے پی برسر اقتدار ہے ۔ دونوں کو ریاست کے عوام کی حفاظت اور انہیں نقصانات سے بچانے کیلئے مشترکہ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے ۔ تاہم یہ اسی وقت ممکن ہے جب سیاسی جماعتیں اپنی وابستگی کا خیال ؎کئے بغیر عوام کو راحت پہونچانے کے مقصد سے کام کریں۔ ہماچل پردیش کے منڈی ضلع میں سب سے زیادہ نقصانات ہوئے ہیں اور اس لوک سبھا حلقہ کی نمائندگی کنگنا رناوت کرتی ہیں۔ انہوں نے تاحال متاثرہ علاقوں کا دورہ نہیں کیا اور نہ ہی انہوں نے یہاں ہوئے نقصانات پر کسی طرح کا رد عمل ظاہر کیا تھا ۔ انہیں تو اس وقت خیال آیا جب خود ان کی ہی پارٹی بی جے پی کے قائدین نے ان کی عدم موجودگی کے تعلق سے ریمارکس کئے ۔ یہ کہا جا رہا اہے کہ کنگنا رناوت کو اپنے حلقہ کے عوم کے مسائل اور ان کی مشکلات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور اسی لئے انہوں نے حلقہ کا ابھی تک دورہ تک نہیں کیا ہے ۔
ریاست میں کانگریس حکومت کی جانب سے بھی اس مسئلہ پر تبصرے کئے جا رہے ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ حلقہ کی بی جے پی رکن پارلیمنٹ نے تاحال انتہائی مشکل ترین وقت میں بھی اپنے حلقہ کا دورہ نہیں کیا ہے ۔ کنگنا رناوت ہوں یا دوسرے ذمہ دار قائدین ہوں یا ریاتی حکومت کے نمائندے ہوں سبھی کو اس معاملے میں حرکیاتی رول ادا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ہماچل پردیش کے کچھ اضلاع میں تقریبا ہر سال سیلاب کی صورتحال پیدا ہوتی ہے ۔ شدید بارش کی وجہ سے حادثات بھی پیش آتے ہیں۔ اس میں عوام کا جانی و مالی نقصان بھی ہوتا ہے ۔ یہ مسئلہ ہر سال درپیش آتا ہے ۔ ایسے میں اس مسئلہ کا کوئی مستقبل اور دیرپا حل دریافت کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے جو اب تک نہیں کیا گیا ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ آفات سماوی میں کسی کا کوئی دخل نہیں ہوسکتا لیکن اس کے نقصانات کو کم سے کم کرنے کیلئے احتیاطی اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔ ایسے منصوبے بنائے جاسکتے ہیں جن پر عمل آوری کے ذریعہ ریاست کے عوام کو پریشانیوںسے بچایا جاسکتا ہے ۔ نقصانات کو کم سے کم کیا جاسکتا ہے اور ایسا کیا جانا چاہئے ۔ مرکز ی اور ریاستی دونوں حکومتوں کو اس معاملے میں حرکت میں آنے کی ضرورت ہے ۔ ہماچل پردیش ایک پہاڑی ریاست ہے اور یہاں ہر سال لاکھوں سیاح بھی آتے ہیں ۔ اس اعتبار سے بھی ریاست کی اہمیت ہے ۔ تمام صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے خاص منصوبہ بندی کرنا سبھی کی ذمہ داری ہے ۔
ہماچل پردیش میں پہلے بی جے پی کی حکومت بھی تھی ۔ اس وقت مرکز میں بھی بی جے پی کی حکومت رہی تھی ۔ ڈبل انجن سرکار ہونے کے باوجود ریاست کو سیلاب اور اس کے نقصانات سے بچانے کیلئے کچھ نہیں کیا گیا تھا ۔ اب جبکہ ایک بار پھر ریاست میں تباہی آئی ہے ۔ اموات ہوئی ہیں۔ لاکھوں کروڑ کا نقصان ہوا ہے تو کم از کم اب مرکز کو حرکت میں آنے کی ضرورت ہے ۔ ریاستی حکومت کو اعتماد میں لیتے ہوئے موثر اور جامع منصوبہ بندی کی جانی چاہئے ۔ اصل اور اولین مقصد یہی ہونا چاہئے کہ ریاست کے عوام کا کوئی نقصان نہ ہونے پائے ۔ سیاسی وابستگیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔