ہم بھی دیکھیں گے

   

پروفیسر شمیم علیم
سو سلام شاہین باغ کی خواتین کو ،سلام اُن تمام لوگوں کو جو اس مہم میں شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں۔
کتنا خوبصورت لگ رہا ہے شاہین باغ کا یہ منظر، انسانوں کا ایک سیلاب جس میں نہ مذہب کی قید نہ عمر کی۔ دادی پوتی ایک ساتھ کھڑی ہیں۔ چاروں طرف موم بتیاں جل رہی ہیں۔ پرچم لہرا رہے ہیں۔ ہندوستان کا ترنگا جس کی حفاظت کیلئے لوگ سڑکوں پر اُتر آئے ہیں۔ اس ترنگے کے رنگوں کو سرکار صرف ایک رنگ (بھگوا) میں تبدیل کردینا چاہتی ہے۔ لگتا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی نمائش یہاں لگی ہے۔ جگہ جگہ پلے کارڈس ہیں، فنکاروں کی تخلیقات ہیں۔ دیکھے کتنا بڑا ہندوستان کا نقشہ بنایا ہے نہ لوگوں نے۔
لوگ دہلی کی اس سردی میں ایک کمبل اوڑھے، اپنے معصوم بچوں کو سینے سے لگائے دن رات بیٹھے ہیں۔ بچے ان سے پوچھ رہے ہیں ’’اماں کیوں اس آسمان کے نیچے سردی میں بیٹھی ہو؟ ماں انہیں کیسے سمجھائے کہ وہ اپنے بچوں کے مستقبل کے تحفظ کیلئے یہ سب برداشت کررہی ہے۔
کتنا حسین ماحول ہے۔ فیض احمد فیضؔ نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ ان کے پڑوسی ملک میں جہاں لوگ اسے دشمن کی نظر سے دیکھتے ہیں، وہاں پر ہر بچہ، ہر نوجوان، ہر بوڑھے کی زبان پر ان کا نغمہ ہوگا ’’ہم بھی دیکھیں گے‘‘۔ شاید بہت سے لوگوں کو قومی ترانہ یاد نہ ہو، لیکن یہاں ہر کوئی یہ گیت گنگنا رہا ہے۔ ایک عجیب سا سکون ہے۔ لوگ پرامید نظروں سے آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ شاید اللہ اپنا وعدہ پورا کردے۔
آج مجاز کی روح قبر میں خوشی سے ناچ اٹھی ہوگی۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ خواتین ان کے اس شعر کو اتنی سنجیدگی سے لے لیں گی۔تیرے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہیلیکن تو اس آنچل سے ایک پرچم بنالیتی تو اچھا تھا۔
آج ایک نہیں ہزاروں پرچم لہرا رہے ہیں، ایک نہیں ہزاروں جھانسی کی رانیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ کیا کبھی کسی نے سوچا تھا کہ یہ چار دیواری میں بند خواتین اس طرح میدان جنگ میں آجائیں گی۔ اس جذبہ اور اس استقلال کے ساتھ کہ مودی اور امیت شاہ سوچ میں پڑ جائیں گے کہ اب کیا کریں۔ یہ کوئی نہیں جانتا کہ یہ قافلہ کیسے بنا۔ کس نے اس کی قیادت کی۔ بس لگتا ہے:
لوگ ساتھ آتے گئے اور قافلہ بنتا گیا
اس قافلے میں صرف خواتین نہیں ہیں، ہر عمر کے لوگ، ہر مذہب کے لوگ، کہاں کہاں سے آکے جڑگئے ہیں۔ سکھ برادری نے یہاں اپنا لنگر کھول دیا۔ کشمیری پنڈت خود اس انسانی زنجیر کا ایک حصہ بن گئے اور سرکار حیران ہے:
اُلٹی ہوگئیں سب تدبیریں
کچھ نہ زہر نے کام کیا
کتنا پرسکون ماحول ہے، نہ شوروغل، نہ چیخ و پکار، پتہ نہیں کیسے سب کام اپنے آپ ہی ہوتے جارہے ہیں۔ لگتا ہے اللہ نے پھر من و سلویٰ بھیجنا شروع کردیا ہے۔ شاید آپ کو یاد ہو کہ آج سے ٹھیک 100 سال پہلے 1920ء میں گاندھی جی نے Non-Coperation Movement شروع کیا تھا اور آج 100 سال بعد شاہین باغ کی خواتین اس انقلاب میں ایک نئی روح پھونک دی ہیں۔ یہ انقلاب صرف شاہین باغ تک محدود نہیں ہے۔ ہندوستان کے ہر شہر میں، ہر گاؤں میں، ایک شاہین باغ بن گیا ہے۔ مودی جی شاید عورت کے اس جذبہ سے واقف نہیں۔ عورت ایک چٹان ہے جسے توڑنا آسان نہیں۔ جب اس پر حملہ ہوتا ہے تو وہ بھوکی شیرنی بن جاتی ہے۔ مودی جی اپنی ضد چھوڑیئے۔ ان بہنوں کو گلے لگا لیجئے، ورنہ کہیں آپ کو کرسی نہ چھوڑنا پڑے۔ مودی جی آپ کو تو اپنی ان بہنوں سے بہت ہمدردی تھی جب آپ نے تین طلاق کے خلاف قانون بنایا۔ آج آپ کو کیوں ان کی فکر نہیں ہے اور نقوی صاحب نے کیوں اپنا چہرہ برقعہ میں چھپا لیا ہے۔ مودی جی آپ کی بہنیں بے چین ہیں، کیا آپ ان کے ساتھ ایک پیالی چائے نہیں پی سکتے، ان کے خوف کو ان کی پریشانیوں کو دور نہیں کرسکتے۔ اگر وہ غلط راستہ پر ہیں تو انہیں صحیح راستہ دکھایئے اور اگر آپ غلط راستہ پر ہیں تو اپنا راستہ بدل دیجئے۔ یہی بڑے پن کی نشانی ہے۔آپ ایک قدم بڑھایئے ، آپ کی بہنیں دو قدم بڑھائیں گی۔ پہلے آپ پہلے آپ میں کہیں ٹرین نہ چلی جائے۔
مودی جی ہم آپ کے بے حد شکر گذار ہیں کہ آپ نے ایک ایسا احول پیدا کردیا ہے جس کی وجہ سے ہندوستان کے تمام ہوش مند شہری اپنے مذہب، اپنی سیاسی پالیسیوں کو بالائے طاق رکھ کر ایک کھلے میدان میں اس جذبہ کے ساتھ آگئے ہیں۔ ہم ترنگے کے وقار کو ٹھیس نہیں لگنے دیں گے۔ آزادی کے بعد شاید یہ پہلا موقع ہے کہ ہاتھ سے ہاتھ ملاکر انسانی زنجیریں ظلم کے خلاف کھڑی ہیں۔ پچھلے کئی سال سے آپ کی حکومت نے ہی کوششیں کی کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ ایک دراز بلکہ کھائی بنائی جائے۔ ہر طرف نفرت کی آگ پھیلا دی گئی۔ اس آگ میں کتنی زندگیاں ختم ہوگئیں۔ لوگوں کو آپ نے مذہب کا زہر پلاکر مدہوش کردیا اور ان سے دلوں پر انگوٹھا لگواکر آپ نے اپنی حکومت بنالی اور من مانے قانون پاس کرتے رہے۔ جمہوریت ختم ہوگئی۔ لوگوں کو جیل میں بھردیا گیا۔ سب کے منہ پر تالے لگ گئے۔
لیکن جب ان کی مدہوشی ختم ہوگی تو انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگا اور انہوں نے بغاوت کا پرچم لہرادیا۔ آپ نے ہمیں ظلم کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور کیا۔ یہ انقلاب کی شمع آپ کی وجہ سے روشن ہوئی ہے اور یہ شمع اس وقت تک جلتی رہیں گی، جب تک ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوجاتیں۔
شاہین باغ کا نام سنہری حرفوں میں تاریخ کی کتابوں میں لکھا جائے گا اور یہ نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کی خواتین کے لئے ایک مثالی انقلاب بن جائے گا۔ جئے ہند