ہم لوگ ذرا دیر سے بازار میں آئے

   

طالبان سے بات چیت… دہشت گردی پر دہرا معیار
اندرون ملک مخالف مسلم دہشت گردی روکی جائے

رشیدالدین
’’دہشت گردی‘‘ امریکہ میں ٹوئین ٹاورس سے طیاروں کے ٹکرانے کے بعد دنیا بھر میں اس لفظ کے استعمال میں شدت پیدا ہوگئی ۔ جہاں کہیں تشدد کا کوئی واقعہ پیش آئے تو اسے دہشت گردی کا نام دے دیا جاتا ہے ۔ دہشت گردی کا لیبل لگانے کیلئے حملہ آور کا مسلمان ہونا شرط ہے اور اگر کسی اور مذہب سے تعلق نکل آئے تو اسے دماغی توازن خراب ہونے کا سرٹیفکٹ دے کر چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ دہشت گردی لفظ کے استعمال میں جانبداری اور مخالف اسلام جذبہ کچھ اس قدر پروان چڑھا کہ اسلامی اور مسلم دہشت گردی کی اصطلاحات ایجاد کی گئیں۔ دہشت گردی کے واقعات کو نفرت اور عداوت کی عینک سے دیکھا جانے لگا، حالانکہ دہشت گرد کارروائی میں کوئی ملوث ہو، چاہے اس کا تعلق کسی مذہب سے کیوں نہ ہو، اسے دہشت گردی ہی کہا جائے گا لیکن دنیا کے نزدیک دہشت گردی کے لئے معیارات مختلف ہوگئے۔ جس کسی کو بدنام کرتے ہوئے نشانہ بنانا ہو تو اسے یہ لیبل لگانے کا دنیا اور خاص طور پر دنیا پر حکمرانی کا خواب دیکھنے والوں میں رجحان عام ہوچکا ہے۔ کسی بھی لفظ کے استعمال میں ہمیشہ احتیاط کرنی چاہئے ، پتہ نہیں کب وہی لفظ آپ پر بھاری پڑ جائے۔ گزشتہ 20 برسوں سے امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان میں طالبان کو دہشت گرد قرار دیتے رہے لیکن آج اسی تنظیم سے بات چیت کے لئے مجبور ہوچکے ہیں۔ طالبان جب دہشت گرد تنظیم ہے تو پھر امریکہ ، روس ، چین اور ان کے اتحادی دہشت گرد تنظیم سے نہ صرف بات چیت بلکہ تعلقات استوار کرنے تیار کیوں ہیں؟ دراصل دنیا طاقت کی زبان سمجھتی ہے ، جب تک طالبان اقتدار میں نہیں تھے ، انہیں دہشت گرد کہا گیا لیکن افغانستان پر کنٹرول کے ساتھ ہی ہر طرف سے مذاکرات کی پیشکش کی جانے لگی۔ ہندوستان کا بھی کچھ یہی حال ہے۔ 20 سال تک حامد کرزئی اور اشرف غنی حکومتوں سے تعلقات اور افغانستان کی تعمیر نو کے کاموں کی تکمیل تک ہندوستان کو بھی طالبان دہشت گرد کے طور پر دکھائی دیتے رہے۔ اشرف غنی کے فرار اور طالبان کے قبضہ کے بعد ہندوستان مخمصے میں ہے کہ کل تک جسے دہشت گرد کہا گیا ، اس سے مذاکرات کیسے اور کیونکر کئے جائیں۔ ہر ملک کو اپنے مفادات اور وہاں اپنے شہریوں کے تحفظ کے لئے سفارتی راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے ۔ دہشت گردی کے مسئلہ پر ہندوستان کے دوہرے معیارات آشکار ہوگئے۔ 2014 ء میں مرکز میں بی جے پی اقتدار کے بعد سے لفظ دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں ، مسلم جماعتوں ، تنظیموں ، مذہبی شخصیتوں حتیٰ کہ دینی مدارس کو نشانہ بنایا گیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ طالبان سے بات چیت کی تائید یا پھر جارحانہ فرقہ پرست تنظیموں کی دہشت گردی پر تنقید کی جائے تو ملک دشمنی اور غداری کے مقدمات درج کئے گئے ۔ سچائی اور انصاف کا تقاضہ یہی ہے کہ جس طرح ظلم کسی شکل میں کیوں نہ ہو ، آخر ظلم ہوتا ہے ، اسی طرح دہشت گردی چاہے کسی جانب سے کی جائے اسے دہشت گردی ہی کہا جائے گا ۔ ہندوستان میں برسر اقتدار طبقہ اور سنگھ پریوار کے جانچ کا پیمانہ کچھ عجیب ہے۔ کوئی مسلمان غلطی کرے تو دہشت گردی اور کوئی اپنا کرے تو دیش بھکتی۔ نریندر مودی حکومت کو دہشت گردی پر اپنے معیارات کا از سر نو تعین کرنا ہوگا۔ امریکہ نے ہندوستان کو اعتماد میں لئے بغیر افغانستان سے تخلیہ کردیا اور ہندوستان کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔ 20 سال میں جس ملک نے تعمیر نو کے کاموں میں تعاون کیا تھا ، اسے بے خبر رکھتے ہوئے راتوں رات افغانستان سے اپنی دکان اٹھالی گئی ۔ امریکہ کی دوستی میں طالبان سے دوری اور دہشت گرد قرار دینے والا ملک ہندوستان آج طالبان سے بات چیت پر مجبور ہوچکا ہے ۔ مودی حکومت نے انتظار کرو اور دیکھو کی پالیسی اختیار کی ۔ مودی نے افغانستان کے حالات پر نظر رکھنے کیلئے اعلیٰ سطحی گروپ تشکیل دیا پھر اچانک قطر میں ہندوستانی سفیر نے طالبان کے نمائندہ سے بات چیت کی۔ بات چیت کی صورت میں اپنی کمزوری کی پردہ پوشی اور سنگھ پریوار کی ناراضگی سے بچنے کیلئے قطر میں مذاکرات کئے گئے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طالبان کے بارے میں مودی حکومت کا کل کا موقف درست تھا یا پھر آج کا موقف درست ہے۔ طالبان دہشت گرد تنظیم ہے یا نہیں ، اگر ہے تو پھر مذاکرات کیوں کئے گئے ؟ مذاکرات کا مطلب ہندوستان نے طالبان کو بطور حکمراں تسلیم کرلیا ہے۔ جب مذاکرات کا آغاز ہوچکا ہے تو کیا ہندوستان اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے صدرنشین کی حیثیت سے طالبان کا نام دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے خارج کرے گا ؟ ووٹ بینک کو بچانے کیلئے دہلی میں ایک موقف اور قطر میں دوسرا موقف ناقابل فہم ہیں۔ کیا اقتدار میں آتے ہی دہشت گرد از خود جمہوریت پسند بن جاتے ہیں؟ جہاں تک مذاکرات کا سوال ہے ، اس میں شرمانے چھپ کر بات کرنے کے بجائے برملا مذاکرات کئے جائیں اور یہی ہندوستان کے مفاد میں ہے۔ طالبان سے دوری دشمن ممالک سے طالبان کو قریب کردے گی۔ ’’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں‘‘ کی پالیسی کے بجائے ملک کے مفاد میں کھل کر فیصلہ کرنا ہوگا۔ طالبان بھی ہندوستان سے ٹکراؤ نہیں چاہیں گے ، لہذا افغانستان کی تعمیر نو کے کام انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جاری رکھے جاسکتے ہیں۔ طالبان سے بہتر تعلقات کا فائدہ کشمیر میں دکھائی دے سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سرحد بھی محفوظ اور پرامن رہے گی۔
بات جب دہشت گردی کی چل پڑی ہے تو پھر اندرون ملک مخالف مسلم سرگرمیوں کو کیا کہیں گے ۔ اگر اسے دہشت گردی کہا جائے تو حکومت اور سنگھ پریوار کو برداشت نہیں ہوتا لیکن بہرحال تشدد کا جب دہشت گردی نام دیا جاچکا ہے تو پھر ہندوستان میں 2014 ء سے مختلف عنوانات کے تحت مسلمانوں کے خلاف جاری تشدد دہشت گردی ہی قرار پائے گا۔ گزشتہ 7 برسوں سے مظالم ، حملوں اور ہجومی تشدد میں نہتے مسلمانوں کو ہلاک کیا گیا ۔ حالیہ دنوں میں بھی اترپردیش ، راجستھان اور مدھیہ پردیش میں واقعات پیش آئے۔ طالبان سے بات چیت کی تائیدکرنے والوں پر مقدمات اور ان کے خلاف سنگھ پریوار کی مہم باعث حیرت ہے۔ اب جبکہ مودی حکومت نے خود طالبان سے بات چیت کی پہل کی ہے تو پھر ملک سے غداری کے مقدمہ کے اصلی حقدار کون ہوئے۔ گودی میڈیا اور سنگھ پریوار کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہے۔ طالبان کے قبضہ کے بعد 24 گھنٹے گودی میڈیا نے طالبان کے خلاف مہم چلائی اور انہیں دہشت گرد ثابت کرنے کے لئے جارحانہ فرقہ پرست نظریات کے حامل افراد کو ٹی وی پر پیش کیا لیکن جیسے ہی مودی حکومت نے طالبان سے بات کی گودی میڈیا پر سناٹا چھاگیا ہے ۔ میڈیا مذاکرات کے مسئلہ پر مودی حکومت پر تنقید کی جرأت نہیں کرسکتا۔ اگر کل کے دن افغانستان سے سفارتی تعلقات بحال ہوجائیں تو یہی گودی میڈیا اور سنگھ پریوار کے ترجمان طالبان حکومت کی تائید اور ان کی تعریف میں زمین و آسمان ملا دیں گے ۔ حکومت نے جب طالبان سے دوستی کا من بنالیا ہے تو پھر ان تمام جہد کاروں کے خلاف عائد کردہ ملک دشمنی کے مقدمات سے دستبرداری اختیار کرلی جائے ۔ سیاسی مبصرین میں اس بات کو لے کر بحث جاری ہے کہ ہندوستان نے طالبان کے بارے میں اپنا موقف کس کے اشارہ پر تبدیل کیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اپنے قریبی حلیف اور دوست امریکہ نے ہندوستان کو یہ مشورہ دیا ہوگا ورنہ ملک میں طالبان سے بات کرنے کی وکالت کرنے والے تو ملک دشمن دکھائی دے رہے تھے۔ ہندوستان کو جب طالبان قبول ہے تو پھر کشمیر کی جماعتوں اور تنظیموں کے بارے میں بھی موقف میں تبدیلی آنی چاہئے ۔ کشمیری عوام کے مسائل کے حل کے لئے سیاسی اور عوامی جماعتوں سے مشاورت کی جائے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ مودی نے کشمیر میں جمہوریت کی بحالی کے لئے سیاسی جماعتوںکا اجلاس طلب کیا تھا لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ آج تک بھی کشمیری عوام اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ دفعہ 370 کو بحال کرتے ہوئے کشمیر کو دوبارہ ریاست کا درجہ دیا جائے اور عام انتخابات کرائے جائیں تاکہ عوام اپنی پسند کی حکومت منتخب کرسکیں۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ جس طرح امریکہ نے افغانستان میں طالبان کو چھینی ہوئی حکومت واپس کردی ، اسی طرح کشمیر میں محبوبہ مفتی کو اقتدار واپس کیا جائے ۔ کشمیری عوام کی مرضی کے بغیر مودی حکومت نے 370 کی برخواستگی کا فیصلہ کیا اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ افغانستان سے بہتر تعلقات کے لئے کشمیر میں امن و امان ضروری ہے ، اگر کشمیری عوام کو ان کے جائز حقوق دیئے گئے تو پھر افغانستان اور پاکستان کو داخلی امور میں مداخلت کی گنجائش نہیں رہے گی۔ طالبان حکومت سے بہتر تعلقات کے قیام کے ذریعہ ہندوستان کئی مسائل سے بآسانی بچ سکتا ہے۔ طالبان نے واضح کردیا کہ وہ اس کی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور یہ فیصلہ ہندوستان کے مفادات کے عین مطابق ہے۔ اب جبکہ ہندوستان نے کل کی دہشت گرد تنظیم طالبان سے مذاکرات کا آغاز کرتے ہوئے موقف تبدیل کیا ہے تو اسے چاہئے کہ اندرون ملک بھی دہشت گرد سرگرمیوں پر روک لگائی جائے جن کے ذریعہ مسلمان اور دیگر اقلیتوں کو منظم انداز میں نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ ڈاکٹر شہریار کا یہ شعر موجودہ حالات پر صادق آتا ہے ؎
امید سے کم چشم خریدار میں آئے
ہم لوگ ذرا دیر سے بازار میں آئے