ملک بھر میں ہندوتوا تنظیمیں اپنی غنڈہ گردی کے ذریعہ قانون سے کھلواڑ کر رہی ہیں اور قانون اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کسی کو بھی نشانہ بنانے سے گریز نہیں کر رہی ہیں۔ ان تنظیموں کے کارکن کسی کو بھی نشانہ بناتے ہوئے غنڈہ گردی پر اتر آئے ہیں اور حیرت و افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومتیں اور پولیس فورس ان کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے انہیں تحفظ فراہم کر رہی ہیں۔ ہندوتوا تنظیموں کے غنڈے سوپر پولیس کی طرح کام کرنے پر لگے ہیں جس کے نتیجہ میں قانون کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ قانون سے کھلواڑ کرتے ہوئے غریب عوام کو نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے اور یہ سب کچھ پولیس کی موجودگی میں ہو رہا ہے اور ملک کی کئی ریاستوں کی پولیس ان غنڈوں کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے خود بھی قانون شکنی کی مرتکب ہو رہی ہے ۔ ملک میں ایک نظام ہے ‘ ایک قانون ہے اور اس کے تحت ہمارا ملک کام کرتا ہے ۔ قانون ہاتھ میں لینے کی کسی کو بھی اجازت نہیں ہوسکتی ۔ پولیس کو اس بات کو یقینی بنانا ہوتا ہے کہ جہاں کوئی قانون کی خلاف ورزی نہ کرے وہیں کوئی قانون خود اپنے ہاتھ میں بھی نہ لے ۔ تاہم پولیس اپنی اس ذمہ داری کو پوری کرنے میں یکسر ناکام ہے اور قانون ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے انہیں تحفظ فراہم کر رہی ہے ۔ ملک بھر میں اس طرح کے کئی واقعات پیش آنے لگے ہیں۔ تازہ ترین واقعہ پونے میں پیش آیا ۔ افسوس کی بات ہے کہ ایک سابق فوجی جس نے کارگل جنگ میں پاکستان سے مقابلہ کیا تھا اس کے بھائی کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔ ہندوتوا تنظیموں کے کارکن دو سادہ لباس میں ملبوس پولیس اہلکاروں کے ساتھ اس کے گھر میں نصف شب کو گھس گئے ۔ اس کے دستاویزات دکھانے کا مطالبہ کیا ۔ جب اس نے آدھار کارڈ وغیرہ دکھایا تو اسے فرضی قرار دیتے ہوئے سارے خاندان کو بنگلہ دیشی قرار دینے لگے ۔ گھر کی خواتین اور بچوں کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ۔ کہا گیا ہے جب سارے دستاویزات دیکھ لئے تو وہ دھمکا کر چلے گئے کہ اس واقعہ کی پولیس میں یا کسی اور سے کوئی شکایت درج نہ کروائی جائے ۔ تاہم شکایت درج کروادی گئی ہے ۔
پتہ چلا ہے کہ دو سادہ لباس میں ملبوس پولیس اہلکار بھی ان غنڈوں کے ساتھ تھے ۔ یہ بھی تحقیق طلب ہے کہ وہ واقعی پولیس اہلکار تھے بھی یا نہیں ۔ اگر پولیس اہلکار تھے تب بھی ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے کیونکہ کسی ہجوم یا غنڈوں کو کسی کے دستاویزات کی تنقیح کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ اگر کسی کے تعلق سے کوئی شک ہو تو پولیس سے معاملہ رجوع کیا جاسکتا ہے ۔ اگر یہ دونوں بھی پولیس اہلکار نہیں تھے اور اسی گینگ کا حصہ تھے تب بھی ان کے اور ساری گینگ کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئے ۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ آسام میں جب این آر سی پر نفاذ کا آغاز کیا گیا تھا اس وقت آسام میں ایک فوجی عہدیدار کو خود شہریت ثابت کرنے کو کہا گیا تھا حالانکہ وہ ہندوستان کیلئے جنگ بھی لڑ چکا تھا ۔ اس طرح یہ بات واضح ہونے لگی ہے کہ این آر سی یا کسی اور بہانے سے ملک میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان کی شہریت پر بھی سوال کئے جا رہے ہیں۔ بہار میں ووٹر لسٹ پر خصوصی نظرثانی کا جو عمل شروع ہوا ہے اس پر بھی اسی طرح کے اندیشوں کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ اگر حکام یا پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی کی جاتی ہے تو قانونی طور پر اس کا جواز ہوسکتا ہے ۔ پولیس کو ایسا کرنے کا حق ہے تاہم غنڈوں کی گینگ اگر کسی کے گھر میں نصف شب کو گھس جاتی ہے اور انہیں ہراساں کیا جاتا ہے تو یہ معاملہ سنگین ہی کہا جاسکتا ہے اور ایسا کرنے والوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جانی چاہئے ۔ پونے واقعہ پر شکایت درج کروانے کے باوجود کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے ۔
یہ اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ آئندہ دنوں میں اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہوسکتا ہے اور مسلمانوں کو گھروں میں گھس کر نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ انہیں بنگلہ دیشی قرار دیا جا رہا ہے اور ان سے شہریت کا ثبوت طلب کیا جا رہا ہے ۔ اگر حکومتوں اور پولیس فورس کی جانب سے ایسے واقعات کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی اور خاموشی اختیار کی جاتی ہے تو حالات اور بھی سنگین ہوسکتے ہیں اور ایسا کرنے والوں کے عزائم بلند ہوسکتے ہیں۔ عوام کو اور شہری حقوق کی تنظیموں کو بھی ایسے معاملات میں حرکت میں آنے کی ضرورت ہے اور قانون اپنے ہاتھ میں لینے والے غنڈہ عناصر کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئے ۔