ہندوراشٹرا حقیقت ، منفی نتائج ، نقصانات

   

مرحوم ڈاکٹر حسن الدین احمد کا محققانہ تجزیہ

مرکز میں مودی حکومت کے زیراقتدار ہندوستان جس گمبھیر صورتحال سے گزر رہا ہے وہ پریشان کن ہے ، آئین میں ترمیم کے متنازعہ قوانین نے دردمندانِ وطن کو سراپا احتجاج بننے پر مجبور کردیا نیز ہندوستان میں آئین کے تحفظ ، جمہوریت کی بقاء اور بھائی چارہ کے استحکام کے لئے متعدد محبان وطن نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے اور معصوم طلباء ظلم و تشدد کو جھیل رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان کی خمیر باہمی پیار و محبت سے تیار کی گئی ہے ۔ اس ملک نے اس وقت Diversity اور بقائے باہم کی عمدہ مثال قائم کی تھی جبکہ مغربی دنیا کا کوئی وجود ہی نہ تھا ۔ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب ہندوستان کی فطرت و طبیعت ہے ۔ ہندو راشٹرا کی حقیقت ایسی ہے جیسے تندرست اور صحتمند جسم کبھی بیمار ہوتا ہے اور بروقت صحیح تشخیص کرنے اور مناسب علاج سے وہ بیماری دور ہوجاتی ہے اور جسم حسب حال صحتمند و تندرست ہوجاتا ہے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہندو شدت پسندی کی مسموم ہواؤں نے ہندوستان کے سیکولر ڈھانچے کو متاثر ضرور کیا ہے لیکن اس کے برے عواقب و نتائج سے سارا ہندوستان واقف ہوچکا ہے اور اس کے انسداد کے لئے جٹ گیا ہے اور بفضل الٰہی اس سے خلاصی یقینی ہے اور اس حکومت کا زوال قریب ہے لیکن اس کے جو آثار مرتب ہوئے ہیں اور ہورہے ہیں اس کا تدارک بہت مشکل ہے ۔ معیشت تباہی کی طرف جارہی ہے ۔ نوجوانوں میں شدت پسندی کا جنون اس ملک کو عظیم ملک بننے سے بہت پیچھے لے جائیگا ۔ بلا لحاظ مذہب و ملت ہمارے اکابر نے اس ملک کو ایک عظیم ملک بنانے کے لئے قربانیاں دی تھیں اور ایسا آئین تدوین کیا تھا جو اس ملک کو دنیا میں سوپر پاور کا مقام دلاسکتا تھا اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہندو مسلم سکھ عیسائی سب اپنے مذہب اور طریقہ کار پر کاربند رہتے ہوئے اس ملک کو عظیم ملک بنانے کے لئے جدوجہد کریں۔ اور جب اس کو کسی ایک مذہب کے ساتھ جوڑنے کی کوشش ہوگی تو یہ ملک کبھی عظیم ملک نہیں بن سکتا ۔ عملی طورپر تمام باشندگان پر یہ بات عیاں ہوگئی کہ ہندو راشٹرا کا نظریہ ہندوستانی ڈھانچے کے لئے ایک مہلک کینسر ہے اس کے جراثیم کو فی الفور ختم کرناہندوستان کی سلامتی کے لئے ناگزیر ہے ۔
مرحوم ڈاکٹر حسن الدین احمد حیدرآباد کے عظیم سپوت ہیں ، ایک صدی پر محیط ان کی زندگی ہے ۔ تاریخ کے جبر کو بذات خود مشاہدہ کیا ہے ، آصفیہ سلطنت کی عظمت کو دیکھا ہے ، سقوط حیدرآباد کے کانٹوں کو سہا ہے اور آزادی کے بعد ہندوستان کی تلون مزاجی کو دیکھا ہے ، وہ ایک جہاں دیدہ محقق گزرے ہیں ، انقلاباتِ زمانہ کے باوجود انھوں نے اپنے اسلاف کی آب و تاب اور جاہ و حشمت کو بدستور برقرار رکھا اور مرد آہن کے مانند نہایت استقامت اور اولوالعزمی کا مظاہرہ کیا اور اپنی علمی ، ادبی ، تحقیقی اور ملی خدمات سے ا پنے خاندان کا نام ہمیشہ بلند رکھا ۔ انھوں نے جس محققانہ پیرایہ میں ہندو راشٹرا کے نظریہ کو ہندوستان کے لئے غیرمعقول ثابت کیا ہے وہ قابل دید ہے ۔ اس لئے چند ایک اقتباسات ان کی تصنیف ’’کاروانِ خیال ‘‘ سے ماخوذ ہیں درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
’’وطن پرستی ، وطن دوستی ، وطن سے محبت یا حب الوطنی ایک اچھا اور فطری جذبہ ضرور ہے ۔ اپنے گاؤں ، اپنے شہر اور اپنے ضلع سے ہر ایک کو ایک خاص لگاؤ اور محبت ہوتی ہے لیکن ہندوتوا کے عقیدے کے تحت وطن پرستی کو مقدس بنانے کی تعلیم دیجاتی ہے ۔ اگر ملک کی سب سے بڑی اقلیت امیر خسرو (۱۲۵۳۔۱۳۲۵ء ) سے لیکر سرمحمد اقبالؔ تک یہ کہتی رہی ہے کہ ہم ہندی ہیں اور ہندوستان ہمارا وطن ہے اور یہ بھی کہتے ہیں کہ ہندوستان سارے جہاں سے اچھا ہے تب بھی ہندوتوا کے خودساختہ عقیدہ کے تحت وہ ہندوستان کے شہری نہیں بلکہ ملیچھ ہیں کیونکہ وہ ہندوستان کو مقدس سرزمین نہیں مانتے کیونکہ وہ محب الوطن ہیں وطن پرست ہیں۔ (کاروانِ خیال ص : ۲۵)
جہاں تک ملک کا تعلق ہے یہ بات اس حد تک درست ہے کہ اس کے نام ’ہند‘ اور اس کی تہذیب سے ہزاروں سال سے تمام دنیا واقف تھی جس کی تفصیل کتاب ’’ہندوتوا‘‘ میں دی گئی ہے لیکن یہاں کے مذہب کو کبھی بھی ’’ہندومذہب ‘‘ کا نام نہیں دیا گیا ۔ ہندوستان کی کسی بھی مذہبی کتاب چار ویدوں ، ۱۸ پرانوں ، مہابھارت ، رامائن وغیرہ کسی میں بھی ’’ہندو‘‘ نام کے کسی مذہب کا ذکر نہیں ہے ۔ کم و بیش ایک ہزار سال مسلمان ہندوستان آئے تو یہاں ان کو مذہب اور عقائد کا ایک جنگل نظر آیا ۔ پورا سماج ذات پات کی بندشوں میں بندھا ہوا تھا ان نو واردوں کے علماء مثلاً ابوریحان بیرونی (۹۷۳۔۱۰۴۸) ان تمام فرقوں اور ذیلی فرقوں سے پوری طرح واقف تھے لیکن ان نوواردوں کے عوام کو صورتحال سے واقف کروانے کے لئے برصغیر کے تمام فرقوں اور ذیلی فرقوں کو قوسین میں رکھ کر ایک مشترکہ نام ’’اہل ہند‘‘ کی نسبت سے ’’ہندو‘‘ دیدیا گیا‘‘۔ ( ص :۳۲)
’’اطالیہ میں آمراعظم مسولینی اور جرمنی میں آمراعظم ہٹلر کی فسطائیت (Facism) کا زہر جو دنیا کی تمام قومی حکومتوں میں کہیں کم اور کہیں زیادہ سرایت کرگیا ہے ۔ مکیاول ہی کے نظریہ کی دین ہے ۔ ہندوتوا کے نظریہ کے ماننے والے بھی اسی ذہنیت کے شکار ہیں۔ ساورکر کی کتاب ’’ہندوتوا‘‘ تقریباً پوری طرح اطالیہ کے فلسفی مازینی (Mazini) (۱۸۰۵۔۱۸۷۲ء) کے اثر کے تحت لکھی گئی ہے ‘‘ ۔ ( ص :۲۰)
’’ساورکر نے’’ سند ہوسے سند ہو تک ‘‘ یعنی دریائے سندھ سے سمندر تک کے علاقے کو بھارت دیس قرار دیکر دیس کو محدود کردیا ہے لیکن ساتھ ہی دیس بھگتی کو تقدس کا درجہ دے دیا ہے ۔
اتنا نہ بڑھا دیس کی بھگتی کو مقدس
تاریخ ذرا دیکھ ذرا رنگِ جہاں دیکھ
مخصوص عقائد اور مقاصد سے وابستہ افراد کا یہ گروہ ملک کی تقدیر کو اپنے خودساختہ افکار کے مطابق ڈھالتا جارہا ہے ۔ عوام کی خواہشات ، ملک کے مفادات سے اُنھیں کوئی سروکار نہیں ۔ انھوں نے ملک کی ذمہ داری خود ہی سنبھال رکھی ہے اور ہندوراشٹریہ کے قیام کو ایک مقدس مقصد بناکر اس کے لئے دہشت گردی سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔ یہ لوگ آج کے دور میں بھی تشدد کے فلسفہ پر یقین رکھتے ہیں جبکہ دنیا مصالحت کی پالیسی کی طرف بڑھتے ہوئے تشدد کو یکسر ترک کرنے کے حق میں ہے ۔ ہندوتوا جمہوری طریقہ اور ہندوستان کے مزاج کے لئے ایک چیالنج ہے ۔ یہ تصور دستور ، قانون کی بالادستی کو متاثر کرنے کے درپے ہیں۔ ہندوتوا سماج کو جوڑنے کی بجائے توڑنے والا عقیدہ ہے ۔ ہندوتوا فسطائیت پسند اور فسطائی ذہنیت ، بے باکی سے اپنے گھناؤنے ارادے ظاہر کررہی ہے ۔ اس عقیدیت کے حامیوں نے تاریخ اور سماجی مطالعہ کی کتابوں میں فرقہ واریت کا رنگ چڑھادیا ہے اور اس کے لٹریچر کو ہندوتوا کے نظریات کا شرارت آمیز ذریعہ اور سیاسی حربہ بنایا جارہا ہے ۔ (ص:۱۷۔۱۸)
’’مکیاولی کا نظریہ اس وقت ہندوتوا کے قائدین ہی پر مسلط نہیں بلکہ ہمارے عوام کی ایک قابل لحاظ تعداد خصوصاً میڈیا ، عاملہ Executiveیا Bureaucrats مثلاً پولیس اور کچھ حد تک عدلیہ پر مسلط ہے۔ اس بات پر بھی سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس بے رحمی اور سنگدلی کے محرکات کیا ہیں ۔ ان محرکات اور فلسفہ کو سمجھے بغیر ہم صرف مذمت ہی کرتے رہ جائیں گے ‘‘۔ ( ص :۲۲)
’’اگر انسان علمی ترقی اور تہذیب کے زمانہ میں بھی اراضی حدود کو ایک آدرش بناکر اس سے نہ صرف محبت کرے بلکہ اس محبت کو تقدس کا درجہ دیکر اور قومیت میں بٹا رہے تو آج کے زمانہ میں اور بربریت کے اس زمانہ میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا ۔ جب انسان نسل ، زبان ، روایات اور اراضی حدود کی بنیاد پر قبیلوں میں بٹا ہوا تھا اور قبیلہ سے بلند تر کسی آدرش کا تصور نہیں کرسکتا تھا ۔ وطنیت یا ہندوتوا کا نظریہ دراصل ہند قدیم کی قبیلوی عصیبت ہی کی ایک توسیع (Extension) ہے ‘‘ ۔ ( ص : ۲۹)