ہندوراشٹرا کی سمت ایک اور قدم

   

را م پنیانی
تمام سہولتوں و آرائش سے پُر نئی پارلیمنٹ کی عمارت کا 28 مئی 2023 ء کو وزیراعظم نریندر مودی نے افتتاح انجام دیا۔ بیشتر اپوزیشن جماعتوں نے اس تقریب کا بائیکاٹ کیا ، اُن کے خیال میں آرٹیکل 79 کے تحت نئی پارلیمنٹ کی عمارت کا افتتاح وزیراعظم کی بجائے صدر دروپدی مرمو کے ہاتھوں انجام دیا جانا تھا کیونکہ راجیہ سبھا اور لوک سبھا دونوں ایوانوں پر پارلیمنٹ مشتمل ہوتی ہے اس لئے صدرجمہوریہ بھی مقننہ کا ایک حصہ ہیں ، تاہم انھیں اس اہم اور تاریخی تقریب سے دور رکھ کر حکومت نے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ ہرچیز میں مودی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے یعنی ہر معاملہ میں انھیں ہی اہمیت حاصل ہے حالانکہ نئی پارلیمنٹ کی افتتاحی تقریب میں صدرجمہوریہ دروپدی مرمو اور اسپیکر لوک سبھا اوم برلا کو سب سے زیادہ اہمیت دی جانی چاہئے تھی ۔
اگر دیکھا جائے تو افتتاحی تقریب میں دو ایونٹس چھائے رہے ایک کثیرتعداد میں سادھو۔ پجاریوں اور کئی مٹھوں کے سربراہوں کی موجودگی اور دوسرے ہندوؤں کے دیوتاؤں شیوا اور گنیش کی پوجا سے متعلق منتروں کا پڑھنا ۔ ہندو مذہبی رسومات کی ادائیگی جیسے ایونٹس کے ذریعہ تقریب کو ہندو مذہبی رنگ دیا گیا اوریہ ہماری ریاست اور دستور کی سیکولر روح ، جذبہ اور اس کی فطرت کے مغائر تھے ( یہ الگ بات ہے کہ مسلم ، عیسائی ، بدھسٹوں کے مقدس مذہبی کتابوں سے آیات ، احکامات اور باب پڑھ کر بھی سنائے گئے ) ۔
اس موقع پر ٹاملناڈو کے مائیلادوتھرائی میں واقع شیوا مٹھ کے صدر پجاری تھرووادوتھرائی ادھینام سے وزیراعظم مودی نے سینگول Scepter حاصل کیا ۔ اس موقع پر اس صدر پجاری کے ساتھ ٹاملناڈو کے مختلف ادھیناموں کے نمائندوں ، اسپیکر لوک سبھا بھی موجود تھے اور ان کی موجودگی میں وزیراعظم نے پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں سینگول اور Scepter نصب کیا ۔ سینگول کے بارے میں کہا گیا کہ یہ دراصل اقتدار کی منتقلی کی علامت ہے اور یہ سلطنت چولا کی عظیم روایات کا ایک حصہ ہے ۔ اس دور میں ہندو مذہبی رہنما اقتدار کی منتقلی کے موقع پر سینگول نئے حکمراں یا راجہ کے حوالے کیا کرتے تھے ۔ یہ اس بات کی علامت بھی ہے کہ یہ اقتدار یا حکمرانی اس راجہ کو خدا کی طرف سے عطا ہوئی ہے اور صدر پجاری کے ذریعہ راجہ تک سینگول کی شکل میں پہنچائی جارہی ہے ۔ اس لئے اب وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے اس پروقار روایت کے احیاء کی کوشش کی جارہی ہے ۔ سینگول کے بارے میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ملک کی آزادی کے بعد یہ سینگول یا سنہری چھڑی لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اقتدار کی منتقلی کی علامت کے طورپر جواہر لال نہرو کو عطا کی تھی ۔ اگر دیکھا جائے تو یہ کہانی بالکل من گھڑت ہے۔ کانگریس لیڈر جئے رام رمیش نے اپنے ’’ٹوئیٹ ‘‘ کے ذریعہ ہمیں بتایا کہ ایک شاندار Scepter اُس وقت کے صوبہ مدراس میں ایک ہندو مذہبی ادارے کی جانب سے تیار کی گئی اور اگسٹ 1947 ء میں اُسے پنڈت جواہر لال نہرو کو پیش کیا گیا ۔ دوسری طرف اس بات کے کوئی دستاویزی ثبوت و شواہد موجود نہیں ہے کہ ماؤنٹ بیٹن ، راجہ جی اور نہرو نے اس سنہری چھڑی کو انگریز سامراج سے ہندوستان کو اقتدار کی منتقلی کی علامت قرار دیا ہو ۔ ایسے دعوے بوگس مکمل طورپر غلط اور واٹس ایپ پر چند تنگ و شرپسند ذہنوں کے پیدا کردہ ہیں اور میڈیا کے ذریعہ افواہیں اور جھوٹ پھیلانے والے اسے پھیلانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھ پاتے ، حقیقت یہ ہے کہ دو اہم راجہ جی اسکالرس نے مذکورہ دلیل پر حیرت کا اظہار کیا ۔ یقینا پنڈت نہرو نے شیوامٹھ کے صدر پجاری سے ان کا اور اُن کے جذبات و احساسات کا احترام کرتے ہوئے سنہری چھڑی قبول کی ہوگی اس لئے انھوں نے اسے اپنے دفتر وزیراعظم میں رکھنے کی بجائے الہ آباد کے میوزیم میں محفوظ کردیا ۔ یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ نہرو نے اس سنہری چھڑی کو اعصاء کے طورپر استعمال کیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ نہرو اور جدوجہد آزادی کے تمام بڑے رہنماؤں نے کبھی بھی شاہی مملکتوں اور راجاؤں ؍ بادشاہوں یا بادشاہت کی تائید وحمایت نہیں کی بلکہ اُن لوگوں نے جمہوریت کا انتخاب کیا اسے اپنایا جہاں انتخابات کے ذریعہ اقتدار ، عوام سیاستدانوں کو منتقل کرتی ہے ۔ مقتدر اعلیٰ یا اقتدار اعلیٰ عوام کا ہوتا ہے پنڈتوں ، پجاریوں اور مذہبی رہنماؤں کے ذریعہ یہ منتقل ہونے والی کوئی چیز نہیں ہے ۔ ہمارے ملک کی یہی خوبی ہے کہ ہندوستانی معاشرہ جمہوریت سے لیس ہے جس کے باعث ایسے اقدار یہاں پائے جاتے ہیں جہاں وزیراعظم یا صدر وہ راجہ نہیں ہوتے جو مذہبی اتھارٹی کو جوابدہ ہو ۔ مذہبی اتھاریٹی کا مطلب یہاں ’’راج گرو ‘‘ (شاہی پجاری ) ہے ۔ یہاں وزیراعظم یا صدر عوام اور دستور کو جوابدہ ہوتے ہیں ۔
دلچسپی کی بات ہے کہ ڈی ایم کے ( ڈراویڈ منیترا کازگم ) کے بانی سی کے انادروائی نے خود سینگول کو اقتدار کی علامت قرار دیئے جانے کی مخالفت میں سخت الفاظ پر مشتمل ایک مضمون لکھا جس میں اُن کا کہنا تھا کہ آپ جانتے ہیں کہ جمہوریت کی خوشبو پھیلنے کیلئے انھیں ( حکمرانوں ) کو اس سینگول سے نجات پانی چاہئے اور جہاں تک مٹھوں کے سربراہوں ( پنڈتوں) کا سوال ہے اُنھیں خوف ہے کہ آپ نے جو کچھ سیکھا آپ اس پر عمل آوری کرسکتے ہیں اس لئے وہ نہ صرف سنہری چھڑی Scepter دیں گے بلکہ اپنے آپ کو بچانے کیلئے نورتنوں سے مزین سنہری چھڑی دینے سے بھی گریز نہیں کریں گے ۔
ہندو رسومات کی ادائیگی دراصل بی جے پی ۔ آر ایس ایس ایجنڈہ کا ایک حصہ ہے جو ہمارے ملک کی گنگاجمنی و ہمہ مذہبی تہذیب کو خطرہ میں ڈالنے کے خواہاں ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ وہ ہندوقوم پرستوں کے خیالات و نظریات کو نافذ کریں اور یہ ان ہندو قوم پرستوں کے خیالات و نظریات ہندو بادشاہوں و راجاؤں کے قواعد و ضوابط اور اُصولوں کا ایک حصہ رہے اور بعد میں اُن کے نظریات کو ماننے والوں ( ہندو قوم پرستوں ) نے اپنایا ۔ یہ بھی صرف ایک حسن اتفاق ہے کہ پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح ایسے وقت کیا گیا جبکہ ہندو قوم پرستی کے نظریہ ساز وی ڈی ساورکر کی 140 ویں برسی بھی تھی ۔ اس دن پارلیمنٹ کی افتتاحی تقریب ایک خاص منصوبہ کے تحت منعقد کی گئی ۔ وی ڈی ساورکر شاید پہلے شخص ہوں گے جنھوں نے اپنی کتاب ’’ہندوتوا یا ہندو کون ہے ‘‘ میں ہندو قوم پرستی اور ہندوتوا کے بارے میں لکھا ۔ اس کتاب میں مذہب کو قوم پرستی کی بنیاد قرار دیا گیا اس طرح ساورکر کی کتاب دو قومی نظریہ پیش کرنے والی پہلی کتاب بن گئی ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ساورکر نے سب سے پہلے دو قومی نظریہ یعنی مذہب کی بنیاد پر ہندوستان کی تقسیم یعنی ہندوستان و پاکستان کا نظریہ پیش کیا ۔ چنانچہ مودی نے بھی اسی نظر سے دیکھتے ہوئے ہندوستانی دستور پر مذہب کو ترجیح دینے کا اشارہ دیا ۔
اپنے خطاب میں مودی کا کہنا تھا کہ آج ایک بار پھر ہندوستان اپنی شاندار قدیم روایات کی طرف واپس ہورہا ہے ۔ آخر وہ دن کیا تھے وہ زمانہ کیا تھا ؟ اس دور میں ایک راجہ ذات پات اور صنف کے درجات پر مبنی معاشرہ کی قیادت کرتا تھا ۔ معاشرہ پر صرف اُس کا حکم چلا کرتا تھا۔ ذات پات کا ایک خصوصی نظام ہوا کرتا تھا جس میں اعلیٰ ادنیٰ کی تفریق تھی ( ویسے ہمارے ملک میں آج بھی ادنیٰ اور اعلیٰ کی تفریق پائی جاتی ہے ) خود منو سمرتی میں ذاتوں کی درجہ بندی یا رتبے واضح کردیئے گئے ہیں اسی وجہ سے معمار دستور ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے منوسمرتی کو آگ لگادی تھی ۔ ڈاکٹر امبیڈکر کے مطابق اس طرح کی کتابیں قدیم زمانے میں دلتوں اور خواتین کو انتہائی بری حالت میں پیش کرتی تھیں ۔ معاشرہ میں انھیں ثانوی درجہ دیا جاتا تھا ۔
بہرحال پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے افتتاح کے موقع پر ہندو پنڈتوں و پجاریوں ، مٹھوں کے سربراہوں کی موجودگی خصوصی ہندو رسوم کی ادائیگی اور سینگول کی تنصیب پر آر ایس ایس نظریہ سازوں نے یہ کہتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا کہ یہ باوقار شاندار ہندو روایت کا احیاء ہے جہاں دوسرے ( مذہب و عقیدہ سیاسی اقتدار سے بالاتر ہے ) یہی سب کچھ ہے اور مذہب ہرچیز سے بالاتر ہے ۔
رام مادھو نے (انڈین ایکسپریس کی 29 مئی 2023 ء کی اشاعت میں )لکھا کہ جیسے ہی سینگل نئے پارلیمنٹ ہاؤز میں پہنچا اس کی حقیقی اہمیت دھرمادنڈ میں ہے اس کا مطلب سیاسی اتھارٹی پر مذہبی اتھارٹی کو فوقیت دینا ہے ۔ یہاں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ پارلیمنٹ کے افتتاح میں جس طرح کے مذہبی رسومات ادا کی گئیں وہ حقیقت میں ہندو راشٹرا کی سمت ایک قدم ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نریندر مودی شاہی ( راجہ رجواڑوں) کے عزائم و امنگیں رکھتے ہیں ۔ ان رسومات سے جدید لباس میں شاہی حکمرانی کے اقدار پیش کئے گئے ہیں اور مذہب کو جمہوری اقدار دبانے کیلئے استعمال کیا گیا ۔ یہ اسلام کے نام پر (پاکستان ) ، عیسائیت کے نام پر ( امریکہ ) بدھ ازم کے نام پر (سری لنکا ) کے متوازی ہے ۔ غرض افتتاحی تقریب میں جو کچھ کیا گیا وہ جمہوریت کے خلاف بغاوت کے مترادف ہے۔