ایغور، قزاخ اور دیگر اقلیتوں سے زراعت اور مینوفیکچرنگ میں جبراً مزدوری کا انکشاف
نیویارک : اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے انسانی حقوق ٹومویا اوبوکاٹا نے عالمی ادارے کو پیش کردہ اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ دنیا کے کئی حصوں میں غلامی نئی شکل میں بڑے پیمانے پر موجود ہے۔ ان میں چین اور بھارت سمیت جنوبی ایشیا کے کئی ممالک، خلیجی ممالک، برازیل اور کولمبیا کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔چین میں ایغور مسلمانوں اور جنوبی ایشیا میں دلتوں کو دور جدید کی غلامی کا شکار بتایا گیا ہے۔ رپورٹ میں موریطانیہ، مالی، نائیجر اور افریقہ کے ساحل علاقے میں تو اقلیتوں کو روایتی طورپر غلام بناکر رکھنے کے واقعات کا بھی ذکر موجود ہے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بدھ کے روز رکن ممالک کو دستیاب کرائی گئی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بچہ مزدوری، جو کہ دور جدید میں غلامی کی ہی ایک شکل ہے، دنیا کے ہر حصے میں پائی جاتی ہے اور اس کی بدترین صورتیں بھی دیکھنے کو مل رہی ہیں۔اوبوکاٹ نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ،”ایشیا اور بحرالکاہل، مشرق وسطیٰ، امریکہ اور یورپ میں چار سے چھ فیصد بچوں کے مزدوری کرنے کی واقعات سامنے آئے ہیں۔ افریقہ میں یہ 21.6 فیصد ہے جب کہ سب سہارا افریقہ میں یہ سب سے زیادہ 23.9 فیصد ہے۔امریکہ نے گزشتہ برس چین کے شمال مغربی صوبے سنکیانگ میں تیار ہونے والی مصنوعات کی درآمد پر پابندی لگادی تھی۔ اوبوکاٹ نے اس کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ چین کے ایغور مسلمانوں کو غلام بنا کر رکھا گیا ہے کیونکہ امریکہ نے پابندی عائد کرنے کے حوالے سے اپنے ضابطے میں کہا ہے کہ اس علاقے سے صرف ایسے مصنوعات کی درآمد کی اجازت دی جائے گی جن کی تیاری میں بندھوا مزدوروں کا استعمال نہیں ہوا ہے۔چین پر یہ الزام ہے کہ وہ مغربی خطے کے نسلی اور مذہبی ایغور اقلیتوں کا بڑے پیمانے پر اور منظم انداز میں استحصال کر رہا ہے۔ حالانکہ چین ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔انگلینڈ میں کیلے یونیورسٹی میں بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کے پروفیسر اوبوکاٹا نے کہا کہ متاثرین اور حکومتوں کی طرف سے فراہم کردہ معلومات کے علاوہ کئی آزاد ذرائع سے دستیاب کرائی گئی اطلاعات کے غیر جانبدارانہ تجزیہ کی بنیاد پر ان کا خیال ہے کہ ”یہ کہنا منطقی ہوگا کہ ایغور، قزاخ اور دیگر نسلی اقلیتوں سے سنکیانگ میں زراعت اور مینوفیکچرنگ جیسے شعبوں میں بالجبر مزدوری کرائی جارہی ہے۔” انہوں نے چین کے ذریعہ استعمال کیے جانے والے دو طریقہ کار کا ذکر کیا۔ ایک تو جس میں اقلیتوں کو حراستی مراکز میں رکھ کر انہیں تربیت دی جاتی ہے اور پھر انہیں کام پر لگا دیا جاتا ہے اور دوسری غریبی کو ختم کرنے کی اسکیم میں جس کے تحت دیہی علاقوں میں دستیاب اضافی مزدروں کو دیگر علاقوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔اوبوکاٹ کا کہنا ہے کہ تبت میں ایسی اسکیمیں اپنائی گئی ہیں جہاں کسانوں، چرواہوں اور دیگر دیہی مزدوروں کو دوسرے علاقوں میں کم آمدنی والے شعبوں میں کام کرنے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔۔اوبوکاٹا نے کہا،”غلامی کے بعض واقعات تو ایسے ہیں جنہیں انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا جاسکتا ہے۔’چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ووانگ وین بین نے اوباکاٹا کی رپورٹ پر نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے ”امریکہ اور بعض دیگر مغربی ملکوں نیز چین مخالف طاقتوں کی جانب پھیلائی گئی جھوٹ اور غلط اطلاعات پر مبنی” قرار دیا۔