زندگی کے راستے میں پھول بھی ہیں خار بھی
اپنے معیار طلب کا امتحان کرتے چلو
!ہندوستانی مسلمان جمود کا شکار
بابری مسجد ایودھیا اراضی تنازعہ کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں داخل کردہ تمام 18 درخواست نظر ثانی کو مسترد کردیا گیا ۔ عدالت عظمیٰ نے 9 نومبر کو بابری مسجد اراضی کیس کا فیصلہ مبہم انداز میں سنایا تھا ۔ درخواست نظر ثانی داخل کرنے والے دونوں جانب کے فریقین نے عدالت کے فیصلہ کو چیلنج کیا تھا ۔ ان درخواستوں میں عدلیہ کی جانب سے ایک اہم اور نازک کیس کے ساتھ کی جانے والی غلطیوں کی جانب نشاندہی کی گئی تھی ۔ حقائق اور قانون دونوں ہی صورتوں میں سپریم کورٹ کا فیصلہ غلطیوں کا بھاری بوجھ محسوس کیا گیا ۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ کے خلاف داخل کی جانے والی عرضیوں کو پانچ رکنی بنچ میں سماعت کے لیے پیش کئے جانے کے بعد ان کی میرٹ کی اساس پر جانچ کر کے فوری مسترد کردیا ۔ اس طرح بابری مسجد کے ساتھ انصاف کرنے کی آخری کوشش کو بھی ناکام بنادیا گیا ۔ اصولاً و عموماً درخواست نظر ثانی داخل کئے جانے کے بعد ججس کو ان عرضیوں میں فیصلہ پر نظر ثانی کرنے کے لیے کئے گئے مطالبہ میں معقولیت کا جائزہ لینا ہوتا ہے اگر ججس کو ان درخواست نظر ثانی میں فیصلہ کا از سر نو جائزہ لینے کے مطالبہ میں کوئی خاص وجہ نظر آتی تو وہ کھلی عدالت میں اس کی سماعت کا حکم دیتے اور اس سماعت کے دوران فریقین کی پیروی کرنے والے وکلاء اپنی دلیلیں پیش کرتے ۔ مگر درخواست نظر ثانی کو سپریم کورٹ نے مسترد کر کے تمام امیدوں کو ختم کردیا ۔ سپریم کورٹ کے 9 نومبر کے فیصلہ کو مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی کیے جانے کی شکایت کو بری طرح نظر انداز کردیا گیا ہے ۔ اس سے صاف ہوگیا ہے کہ عدالت نے عوام کے نظریاتی موڈ کے آئینہ میں فیصلہ سنایا ہے ۔ عدالت نے یہ نہیں سوچا کہ اس کے فیصلہ سے رائے عامہ کا کیا ہوگا ۔ عام طور پر عوام اس ملک کے قانون اور عدلیہ کو اعلیٰ درجہ کے حامل ادارے سمجھتے ہیں لیکن سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد عوام کی رائے بدل گئی ۔ اس عدلیہ کا محترم مقام جھکولے کھانے لگا ۔ بابری مسجد کی 2.77 ایکڑ اراضی کو رام للا کے حوالے کرتے ہوئے عدالت نے اس ملک کے نظریاتی آئیڈیا کے حامل گروپ کی خواہش کا احترام کیا ہے ۔ قانون و انصاف کی رو سے دیکھا جائے تو یہ فیصلہ سراسر قانونی پہلوؤں کا بے جا فائدہ اٹھانے والوں کے لیے ایک ہتھیار ثابت ہوا ہے ۔ عدالت نے دیرینہ مسئلہ کا مستقل حل تلاش کرنے سے گریز کرتے ہوئے سطحی قدم اٹھائے ہیں جس کے نتیجہ میں قانونی جنگ چھیڑنے کی راہ ہموار کردی گئی ۔ سوال یہ ہے کہ کیا سپریم کورٹ میں 18 درخواست نظر ثانی مسترد ہونے کے بعد اس معاملہ میں مزید قانونی جارہ جوئی کی گنجائش ہوگی اور اگر یہ گنجائش نکالی جاتی ہے تو آیا بابری مسجد کیس کے ساتھ ایک وقت مقررہ تک مفاد حاصلہ طاقتیں کھلواڑ کرتی رہیں گی ۔ بابری مسجد کیس کو لے کر ہندوستانی مسلمانوں کو جس قانونی ہتھیار سے ڈرایا دھمکایا گیا ہے اس کے جواب میں مسلمانوں نے عرضیاں دے کر اپنے قانونی ، دستوری اور جمہوری حق سے استفادہ کرنے کی کوشش کی ۔ پرامن طریقہ سے عدلیہ کی توجہ اس کے غلط فیصلہ کی جانب مبذول کروانے کی کوشش کی لیکن سپریم کورٹ نے درخواست نظر ثانی کو مسترد کر کے دستوری و جمہوری حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو مایوس کردیا ۔ ہندوستانی مسلمان اس وقت جمود کا شکار معلوم ہوتے ہیں ۔ ان کے سامنے اندھا دھند طریقہ سے قانون ، عدلیہ ، دستور اور جمہوری اصولوں کو تہس نہس کردیا گیا ۔ لیکن وہ اس ملک کے مخصوص خیالات کے حامل ٹولے کی من مانی کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے ہوگئے ہیں ۔ اپنے اندر تبدیلی لانے کا جذبہ اگر ہوتا ، اپنے حق کے لیے لڑنے کا حوصلہ اگر ہوتا تو آج ہندوستانی مسلمانوں کی یہ درگت ہرگز نہ ہوتی ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ملک میں ان کے خلاف سنگین حالات پیدا کرنے کی کوششوں کے باوجود مسلمان ٹس سے مس نہیں ہورہے ہیں ۔ خود کو بدلنے کی فکر نہیں ہے ۔ جب تک مسلمان قوم تبدیلی پر آمادہ نہیں ہوتی اسے آہستہ آہستہ ہر مشکل سے دوچار کردیا جائے گا اور پھر ایک دن وہ دوسری قوموں کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے ۔۔