ہندوستانی معاشرہ میں جہیز اموات

   

دیکھ زنداں سے پرے جوش جنوں رقص بہار
رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ


دنیا کے کئی ملکوں خاص کر ہندوستان میں جہیز ہراسانی کے واقعات میں دن بہ دن اضافہ ہی دیکھا جارہا ہے۔ یہ دنیا شعوری طور پر معزز، تعلیم یافتہ، مالیاتی طور پر مستحکم اور سمجھدار ہے لیکن بعض معاملوں میں اب بھی تنگ نظری، لالچ، حریص پن، دھوکہ دہی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ہندوستان میں جہیز ہراسانی سے اموات کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ سماج کا چاہے معتبر طبقہ ہو، تعلیم یافتہ خاندان ہو یا مالیاتی طور پر مستحکم افراد ہوں، جہیز کے مطالبات اور وصولی میں کوئی پس و پیش نہیں ہوتا۔ مذہبی رکاٹوں اور مذہبی پابندیوں کو بھی نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ کئی دہوں پہلے ہندوستان میں جہیز کو غیرقانونی قرار دیا گیا تھا لیکن جہیز لینے کا یہ جرم اب بھی پولیس کی ڈائری میں ہر روز درج ہوتا رہتا ہے۔ 25 فروری کو 24 سالہ عائشہ بانو نے احمدآباد گجرات میں سابرمتی ندی میں چھلانگ لگا کر خودکشی کرنے سے قبل ایک ویڈیو پیام ریکارڈ کیا جس میں اس نے کہا کہ وہ اپنے شوہر سے جہیز کیلئے ہراسانی سے تنگ آچکی ہے۔ اس واقعہ سے ایک ہفتہ قبل ہی 25 سالہ رشیکا، اگروال کی کولکاتہ کے ایک پاش علاقہ میں اپنے سسرالی مکان کی چھت سے گر کر موت واقع ہوئی تھی۔ اس کے ارکان خاندان نے الزام عائد کیا تھا کہ ان کی بیٹی کو شوہر اور سسرال والوں نے جہیز کے لئے ہراساں کیا تھا اور اذیت بھی پہنچائی تھی جبکہ ماں باپ نے بیٹی کی خوشی کے لئے 7 کروڑ روپئے بطور جہیز رقم بھی ادا کی تھی۔ اس طرح کے واقعات ہر روز ملک کے کسی نہ کسی کونے میں ہوتے رہتے ہیں۔ ہندوستانی قوانین اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ لڑکی والوں سے جہیز کے نام پر رقومات حاصل کی جائیں۔ جہیز کو ممنوع قرار دینے کے لئے 6 دہوں قبل قانون بنایا گیا تھا۔ انسداد جہیز قانون 1961ء کے نفاذ کے باوجود ہندوستان میں جہیز کا چلن عام ہے اور یہ ہندوستانی معاشرہ کے لئے شرم کی بات ہے۔ سماج کے ہر طبقہ میں جہیز کی لعنت پائی جاتی ہے۔ مسلمانوں میں بھی یہ لعنت زور پکڑ چکی ہے۔ قرآن و احادیث کی روشنی میں مسلم معاشرہ کو جہیز کی لعنت سے خبردار کیا جاتا رہا ہے لیکن اس کے باوجود لڑکی کی شادی کے موقع پر جہیز کا مسئلہ برقرار رہتا ہے۔ عائشہ بانو کی موت کے بعد مسلم معاشرہ میں جہیز کی لعنت کو ختم کرنے کیلئے ہر گوشے سے اپیل ہورہی ہے۔ علمائے کرام، مسلم دانشوروں، اہم شخصیتوں اور قائدین کے بیانات سامنے آتے ہیں لیکن دیکھا یہ جارہا ہیکہ یہ لعنت اس طرح کے وقتی بیانات اور تبصروں یا اقدامات سے ختم نہیں ہورہی ہے۔ اس کے خاتمہ کے لئے منظم مہم کی ضرورت ہے۔ مسلم معاشرہ کو مذہبی، سماجی اور قانونی طور پر باشعور بنانا ضروری ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے طور پر وقتاً فوقتاً مسلم معاشرہ میں پھیلی جہیز کی لعنت، شادیوں پر بیجا اسراف کو روکنے کیلئے اقدامات کئے ہیں۔ کئی ہندوستانی شہریوں میں مسلم تنظیموں، اداروں کی طرف سے مہم چلائی جاتی رہی ہے۔ شہر حیدرآباد میں جہیز کی لعنت کے خلاف مسلمانوں میں شعور بیداری کی جاتی رہی ہے۔ شادیوں میں بیجا اسراف کو روکنے کیلئے ادارہ سیاست نے باقاعدہ مہم چلائی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود مسلم معاشرہ سے شادیوں میں بیجا اسراف، لڑکی والوں پر جہیز اور شادی کے دن تناول طعام کے انتظامات کا بوجھ ڈالا جانے کا سلسلہ برقرار ہے۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہیکہ مسلم معاشرہ کا ایک بڑا طبقہ مذہبی طور پر باشعور ہونے کے باوجود جہیز کی لعنت اور بیجا اسراف کی لت میں ملوث پایا جاتا ہے۔ مسلم گھرانوں میں یا سماج کے کسی بھی طبقہ کے گھر میں جب جہیز کے لئے کوئی بیٹی جان دیتی ہے تو یہ پوری انسانیت کے لئے تشویش کی بات ہے لیکن المیہ یہ ہیکہ ہر المناک واقعہ کے بعد معاشرہ کا مزاج پہلے سے زیادہ سخت ہوتا جارہا ہے۔ مسلم معاشرہ سے جہیز کی لعنت کے خاتمہ کیلئے ایک منظم طریقہ سے مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ اس میں شک نہیں کہ علماء کرام مساجد کے ائمہ کرام اپنے خطبات میں اسلامی تقویٰ کے ذریعہ مسلمانوں کو خبردار کرتے رہتے ہیں لیکن بہت کم مسلمانوں پر یہ بات اثر کرتی ہے۔ اس لئے مسلم معاشرہ کے بیشتر حصہ میں جہیز کی لعنت برقرار ہے۔ اسی لئے گجرات کے احمد کی عائشہ بانو کی خودکشی جیسے سانحات رونما ہوتے ہیں۔ جہیز کا مطالبہ حرام اور غیراسلامی ہے لیکن اس کے باوجود یہ ہمارے معاشرہ سے یکلخت ختم نہیں ہورہا ہے۔ ہندوستانی معاشرہ میں جہیز ہراسانی سے ہونے والی اموات کے بارے میں اسیپشل کرائم ریکارڈس بیوریو 2014ء کے ڈیٹا کے مطابق ایک اندازہ کے مطابق ہر ایک گھنٹہ میں خواتین جہیز ہراسانی کا شکار ہوتی ہیں۔ افسوس اس بات کا ہیکہ یہ جتنا گھناؤنا جرم ہے اس کی سزاء اتنی ہی کم ہے۔ قومی سطح پر قانون کا سختی سے نفاذ ضروری ہے۔
ترنمول کانگریس کے امیدواروں کا اعلان
مغربی بنگال اسمبلی انتخابات چیف منسٹر ممتابنرجی کیلئے آزمائش کی گھڑی ثابت ہوں گے۔ بی جے پی نے اپنی جڑیں مضبوط کرنے کے لئے ساری طاقت جھونک دی ہے۔ 294 رکن اسمبلی کے لئے ممتابنرجی نے 291 امیدواروں کا اعلان کیا ہے۔ ان میں 100 امیدوار بالکل نئے ہیں۔ ممتابنرجی نے اپنے روایتی حلقہ سے انتخاب نہ لڑنے کا فیصلہ کرتے ہوئے نندی گرام سے امیدواروں کا اعلان کیا ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں نے ابھی تک اپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان نہیں کیا۔ 42 مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیتے ہوئے ممتابنرجی نے سیکولر کردار کی حامل قیادت ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ پارٹی کے سینئر قائدین کے بجائے نئے چہروں کو موقع دینے کا فیصلہ ان کے لئے جوکھم بھرا ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ مغربی بنگال ایک ایسی ریاست ہے جہاں کے اقتدار کے حصول کے لئے بی جے پی ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے ایسے میں ممتابنرجی کو غوروفکر کے بعد ہی امیدواروں کا انتخاب کرنے کی ضرورت تھی۔ ہوسکتا ہیکہ نئے چہروں کو موقع دینے سے رائے دہندوں میں بھی ایک نئی سوچ پیدا ہوگی لیکن اس کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتا کہ انتخابات میں ووٹ کس کے حق میں جائے گا۔ مغربی بنگال اسمبلی انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن آف انڈیا نے 8 مرحلوں میں رائے دہی مقرر کرکے کئی شبہات کو ہوا دی ہے۔