ہندوستان اور اقلیتیں

   

نہ جانے گردشِ دوراں نے کس منزل پہ پہنچایا
کہ اقلیتی خلوص میں اب کمی سی ہوتی جاتی ہے
گذشتہ ایک دہے سے زیادہ عرصہ میں ہندوستان میں اقلیتوں کی صورتحال قدرے پریشان کن رہی ہے ۔ جس طرح سے اقلیتوں کے خلاف نفرت کا بازار گرم کیا گیا ہے اس پر ملک بھر میں ہی تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا ہے ۔ ملک کے گودی میڈیا چیانلس ہوں یا پھر زر خرید تلوے چاٹنے والے اینکرس ہوں یا پھر وہ عناصر ہیں جو نفرت اور نراج کے دلدادہ ہیں سبھی نے اپنے اپنے طور پر ملک میں اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی ۔ ملک کے بیشتر گودی میڈیا چیانلس ایسے ہیں جنہوں نے اسٹوڈیو میں بیٹھ کر نفرت کے ماحول کو ہوا دی ہے اور ایسے مسائل پر مباحث کروائی ہے جن کا ملک کی ترقی اور بہتر ی سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ وہ صرف سماج میں زہر گھولنے اور سماج کے دو بڑے اور اہم طبقات کو ایک دوسرے سے متنفر کرنے میں معاون رہے تھے ۔ وقفہ وقفہ سے ملک میں کئی گوشوں نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار بھی کیا ہے ۔ ملک کے کئی معتبر اور متفکر شہریوں نے جو ماضی میں اہم عہدوں پر بھی فائز رہے ہیں بارہا کھلے مکتوب روانہ کرتے ہوئے اس صورتحال کی جانب حکومت کی توجہ بھی مبذول کروائی ہے اور فوری اقدامات پر زور بھی دیا ہے ۔ ہمارے سامنے ایسے کئی واقعات اور مثالیں موجود ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ملک میں اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے واقعات میں تیزی آئی ہے ۔ جہاں اخلاق کا قتل کیا گیا وہیں جنید کو چلتی ٹرین سے پھینک دیا گیا ‘ کہیں کسی کو گوشت رکھنے کے نام پر جان سے ماردیا گیا تو کہیں برقعہ کو اور حجاب کو نشانہ بنایا گیا ۔ کہیں ہجومی تشدد میں کسی کو پیٹ پیٹ کر قتل کردیا گیا تو کہیںسرکاری عہدیداروں نے قانون اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے اور عدلیہ کے وقار کو داؤ پر لگاتے ہوئے مسلمانوں کے مکانات اور دوکانوں کو زمین بوس کردیا ۔ یہ ایسے واقعات ہیں جنس ے ملک میں اقلیتوں کی صورتحال اور ان کے حالات کا پتہ چلتا ہے ۔ ان واقعات کی روک تھام اور ان کے تدارک کیلئے حکومت کی جانب سے وہ کچھ نہیں کیا گیا جو کچھ کیا جانا چاہئے تھا ۔ حکومت نے اس طرح کے واقعات پر محض خاموشی اختیار کرنے پر اکتفاء کیا ہے ۔
اب ہندوستان میں اقلیتوں کے مکانات اور ان کی عبادتگاہوں کے انہدام کے واقعت پر امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ایک رپورٹ منظر عام پر آئی ہے اور کہا گیا ہے کہ اس طرح کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے ۔ حالانکہ ہندوستان نے اس رپورٹ کو جانبدار قرار دیتے ہوئے مسترد بھی کردیا ہے اور امریکہ کو اس طرح کے واقعات پر تبصرہ کرنے سے گریز کرنا بھی چاہئے ۔ تاہم جہاں تک اس طرح کے واقعات کی بات تو ہمیں اس پہلو سے بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ واقعات بین الاقوامی سطح پر ہمارے ملک کا نام متاثر کر رہے ہیں۔ ملک کیلئے رسوائی اور بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ امریکہ کو ہندوستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کا کوئی اختیار یا حق حاصل نہیں ہے ۔ امریکہ کو خود پہلے اپنے داخلی معاملات پر توجہ دیتے ہوئے ان کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔ جہاں تک ہندوستان میں پیش آنے والے معاملات کا سوال ہے تو ہمیں امریکہ کی تنقید یا تائید سے کوئی سروکار نہیں ہے لیکن ملک کے داخلی حالات کو بہتر بنانے کی سمت سب کی توجہ ہونی چاہئے ۔ ہم کسی کے بھی مفادات کی تکمیل کیلئے ملک کی نیک نامی کو متاثر کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی ۔ بیمار ذہنیت کے حامل افراد سماج کو پراگندہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھ رہے ہیں اور ان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں روکا جانا چاہئے ۔ ملک کی گنگا جمنی تہذیب اور سماجی ماحول کو متاثر کرنے والے عناصر کو کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں کیا جانا چاہئے ۔
امریکہ ہو یا پھر دوسرے ممالک ہوں سبھی کو اپنے اپنے داخلی معاملات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اسی طرح ہندوستان کے حالات پر بھی ہم ہندوستانیوں ہی کو توجہ دینی ہوگی ۔ ہمیں سماج کو پراگندگی سے بچانے کیلئے حرکت میں آنا چاہئے ۔ حکومت پر زور دیا جانا چاہئے کہ وہ ملک کی نیک نامی کو متاثر کرنے والوں کے خلاف حرکت میں آئے ۔ خاموشی اختیار کرتے ہوئے ایسے عناصر کی بالواسطہ حوصلہ افزائی کرنے سے گریز کیا جائے ۔ ہندوستان کی جو گنگا جمنی تہذیب ہے اور سماجی ہم آہنگی کی جو انفرادیت ہے اس کو برقرار رکھا جانا چاہئے اور اس کے ذریعہ ہی ملک کو بدنامی اور رسوائی سے بچایا جاسکتا ہے ۔