ہندوستان اور امریکہ کیلئے تائیوان بہترین سبق

   

روش کمار
کورونا وائرس کی مہلک وباء سے لڑنے میں مشرقی ایشیاء کے ایک اور ملک تائیوان کی خوب ستائش ہو رہی ہے۔ 1.25 ارب آبادی کے حامل اس ملک میں سو دن کے دوران کووڈ ۔ 19 کے صرف 376 کیسیس سامنے آئے ہیں اور 5 لوگوں کی موت ہوئی ہے جبکہ یہ چین کا پڑوسی ملک ہے اور چین سے یہاں اچھی خاصی تعداد میں لوگوں کی آمد ورفت ہوتی ہے۔ تائیوان کے تقریباً ساڑھے آٹھ ملین لوگ چین میں کام کرتے ہیں۔ اس لئے تائیوان خطرہ کے نشانہ پر تھا۔ عالمی ادارہ صحت نے کہا تھا کہ چین کے بعد کورونا سے متاثر یہ دوسرا ملک ہوگا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ تائیوان نے یہ سب لاک ڈاون کے بغیر حاصل کیا کیونکہ جب کووڈ ۔ 19 کی وباء پھیلی تب تائیوان 24 فروری کو احمد آباد میں امریکی صدر ٹرمپ کی ریالی جیسی غلطی کرکے وقت برباد کرنے میں نہیں لگا تھا اور نہ ہی ایک ریاست کی منتخبہ حکومت گرانے کے لئے ارکان اسمبلی کو طیارہ میں بھر کر لے جایا جارہا تھا۔ تائیوان میں اسکولس بند ہوئے اور نہ ہی دفتر بند ہوئے۔ رسٹورنٹس، بار، یونیورسٹیز سب کھلے ہیں تائیوان اقوام متحدہ اور عالمی ادارہ صحت کا رکن بھی نہیں ہے چین کے مداخلت کے سائے میں رہنے والا تائیوان ایک جمہوری ملک ہے۔ یہاں کی حکومتوں نے اپنی شفافیت کے باعث عوام کا بھروسہ جیتا ہے۔ یہ بھروسہ اس وقت حاصل ہوتا ہے جب حکومت عوام سے جھوٹ نہ بولے یا کم بولے یہی وجہ ہے کہ عوام وباء جیسے بحران کے وقت حکومت پر بھروسہ کرتی ہے کہ وہ اس کی صحت سے متعلق معلومات کو ایک جگہ لاکر نظر رکھ سکتی ہے۔ عوام یہ چھوٹ دے دیتی ہے۔ تائیوان نے عوام میں بنے اس بھروسہ کا فائدہ اٹھایا اور کورونا کو قابو کرنے میں کامیابی حاصل کی ۔ میں نے جتنے بھی تجزیوں کو مطالعہ کیا ہے۔ ان سب میں یہ حوالہ آیا ہے کہ تائیوان نے اس لڑائی میں شفافیت کو اپنا ہتھیار بنایا ہے۔

حکومت نے لوگوں کو گمراہ نہیں کیا ہے۔ امریکہ اور ہندوستان کا میڈیا جنوری فروری اور مارچ کے وسط تک کیا کررہا تھا۔ آپ اپنے اختیار تمیزی کا استعمال کرسکتے ہیں۔ تائیوان میں ماہرین اور اسکالرس کو حکومت میں بھیجنے کی روایت رہی ہے۔ یہاں کے صدر جمہوریہ TSAI Ingwen لندن کے اسکول آف اکنامکس سے پی ایچ ڈی ہیں۔ نائب صدر Chen Chein-jeu وباوں کے ماہر ہیں۔ 2003 میں جب SARS کی وباء پھیلی تھی تب انہیں وزیر صحت بنا دیا گیا تھا۔ Chen اپنے فیس بک پر دنیا بھر میں COVID-19 کی صورتحال پر ایک تجزیہ بھی لکھے ہیں تاکہ ان کے عوام باتوں کو وسیع تر تناظر میں سمجھے۔ 2009 میں سوائن فلو آیا تھا۔ سارس اور سوائن فلو پر قابو پانے میں حاصل کامیابی کو تائیوان نے برقرار رکھا ہے۔ اور جب کورونا وباء پھیلی تو اس تجزیہ کار بھرپور استعمال کیا۔ 2003 میں ہی تائیوان نے مستقبل کی وباوں سے لڑنے کے لئے قومی صحت کمانڈ سنٹر بنا دیا تھا۔
31 دسمبر کو جب چین کے ووہان میں کورونا وائرس کی تجزیہ آئی تھی تب اس کا نام کورونا بھی نہیں تھا۔ یہ کہا گیا تھا کہ تب ہی تائیوان نے چین سے آنے والی پروازوں کو محدود کردیا تھا۔چین سے آنے والے لوگوں کی طیرانگاہوں پر اسکریننگ ہونے لگی۔ انہیں قرنطینہ میں بھیجا جانے لگا۔ 20 جنوری کو ہی تائیوان نے اپنے قومی صحت کمانڈ کے تحت مرکزی وباء کمانڈ سنٹر کو سرگرم کردیا۔ سب ہی وزارتیں مل کر منصوبے بنانے لگیں اور ان کا نفاذ عمل میں لانے لگی۔

تائیوان کے وزیر صحت اس کمانڈ سنٹر کی قیادت کررہے ہیں۔ ساری سرحدوں کو بند کردیا گیا اور باقاعدہ روزانہ پریس بریفنگ ہونے لگی چین کے پھیلائے فیک نیوز سے لڑنے کے لئے حکومت نے پوری طرح تیاری کرلی۔ 19 فروری کو جب تائیوان میں کورونا سے متاثر ہونے کے 16 معاملہ سامنے آئے تھے اور چین میں 31000 کیسیس سامنے آئے تب ہی تائیوان نے چین سے جڑی تمام پروازیں منسوخ کردی۔ہانگ کانگ اور مکاو سے آنے والے مسافرین کو قرنطینہ میں بھیجا جانے لگا۔ تائیوان کی ڈیجیٹل منسٹری نے مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے ہر ضروری ڈاٹا کو ایک دوسرے سے مربوط کردیا۔ انشورنس کمپنیوں سے ڈیٹا لیا گیا کہ کس کس نے بیرونی سفر کے لئے بیمہ کرایا ہے اور ویزا ڈپارٹمنٹ سے معلومات حاصل کی گئیں۔
18 فروری سے ہی تمام معلومات اسپتال سے لیکر کلینک اور میڈیکل ہالس کو دی جانے لگی۔ تاکہ جو بھی مریض جائے اس کے سفری ریکارڈ سب کو معلوم رہے۔ ایسے لوگوں کی جسمانی حرارت ریکارڈ کی جانے لگی اور قرنطینہ کو بھیجا جانے لگا۔

عام طور پر حکومتیں ایسی معلومات کا استعمال شہریوں پر کنٹرول کرنے کے لئے کرتی ہیں مگر تائیوان نے اس معاملہ میں اپنے عوام کا بھروسہ حاصل کیا۔ وہاں حکومت ویسا صرف آفات کے وقت ہی کرسکتی ہے۔ لوگوں کو فون پر الرٹ کیا جانے لگا کہ کس علاقہ میں جانا ٹھیک نہیں رہے گا اور کہاں کہاں فیس ماسک ملے گا۔ دوسری طرف حکومت نے اکسپورٹس بند کرکے پیداوار شروع کردی۔ جنوری ختم ہونے تک تائیوان کے پاس ساڑھے چار کروڑ سرجیکل ماسک تیار ہوگئے۔ دو کروڑ N95 ماسک اور 1000 نگیٹیو پریشر آئیسولیشن رومس بنا دیئے گئے۔ یہ ایک خصوصی کمرہ ہوتا ہے۔ جلد ہی تائیوان کے صدر جمہوریہ نے اعلان کردیا کہ تائیوان ایک دن میں ایک کروڑ ماسک تیار کرسکتا ہے۔ لوگ حکومت کی سننے لگے ماسک پہن کر نقل و حرکت کرنے لگے ۔ پولیس کو لاٹھی نہیں چلانی پڑی یعنی عوام پر پولیس کے لوگوں نے ظلم نہیں کیا۔