ہندوستان میں انسانی وقار کی تحریک کی دنیا شاہد ہوگئی

   

ڈاکٹر اسلم عبد اللہ
دنیا اس وقت ہندوستان کے تقریباً ہر گوشے اور تنگ گلیوں میں اور وقار اور عزت نفس کے لئے ایک بے مثال تحریک دیکھنے کا مشاہدہ کررہی ہے اور یہ حقیقی معنوں میں عوام کی تحریک ہے۔ بڑی ہلچل سے چلنے والی اس عظیم جدوجہد کی سب سے بلند آوازیں ان لوگوں کی ہیں جو عمومی طور پر معاشرے میں اپنی ہی زندگی میں مگن رہنے والے افراد ہوتے ہیں۔ خواتین اور نوجوان نہ صرف اس تحریک کے اہم چہرے ہیں بلکہ وہ عوام کے جذبے اور احساسات کو ایک روشن اور بہتر مستقبل کی طرف گامزن کرچکے ہیں۔ یہ سب دسمبر 2019 کے پہلے ہفتے میں شروع ہونے والی تحریک ہے ۔ قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے ہندوستان کے شہریت کے قوانین میں ایک ترمیم منظور کی جس نے شہریوں کو ہندوستانی شہریت کا حق دینے کیلئے ایک متنازعہ قانون منظور کیا جس کے تحت پاکستان ، بنگلہ دیش ، اور افغانستان کے مسلمانوں کے علاوہ تمام مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو شہریت دی جائے گی ۔ ترمیم کردہ اس قانون میں کہا گیا ہے کہ دسمبر 2014 سے قبل جو ہندوستان میں داخل ہوئے تھے وہ اس شہریت حاصل کرنے کے اہل ہوں گے۔ یہ پہلا موقع ہے جب آزاد ہندوستان میں مذہب کو شہریت کے حصول کیلئے معیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ بی جے پی کا یہ فیصلہ آئین ہند کے آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی ہے کیونکہ اس آرٹیکل 14 میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ ریاست کسی بھی شخص کو قانون کے تحت مساوات یا ہندوستان کے کسی بھی علاقے میں قانون کے لحاظ سے مساوی تحفظ سے انکار نہیں کرے گی۔پارلیمنٹ میں 11 ڈسمبر کو یہ قانون منظور کیا گیا جس کے بعد اسی دن ہندوستان کی معروف جامعہ دہلی یونیورسٹی ، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے چند طلباء نے اس قانون کے خلاف کیمپس میں پرامن احتجاج کیا ۔ اگلے دن تعداد میں اضافہ ہوا اور 15 ڈسمبر کو دوسرے اسکولوں اورکالجوں کے طلباء نے بھی احتجاج شروع ہوئے ۔ وزارت داخلہ کی ہدایات کے تحت دہلی پولیس بلا اجازت کیمپس میں داخل ہوئی اور لائبریری ، مسجد کلاس رومز میں طلباء کو بے دردی سے مارا پیٹا۔ پولیس نے متعدد طلباء کو گرفتارکیا اور متعدد کو زخمی کردیا۔ اسی رات جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) اور دہلی یونیورسٹی (ڈی یو) کے طلباء نے پولیس کے ظلم کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرنے کے لئے دہلی پولیس ہیڈ کوارٹر میں جمع ہونے کا مطالبہ کیا۔ پولیس نے تمام گرفتار طلبہ کو رہا کردیا لیکن اس کے بعد جو ہوا وہ غیر متوقع تھا۔دہلی پولیس کے ظلم کے خلاف جامعہ اور دہلی یونورسٹی کے بعد دیگر یونیورسٹیاں اٹھ گئیں اور سی اے اے کو مسترد کردیا۔ اگلے ہی دن شاہین باغ کی چند خواتین پولیس کی زیادتی کے مقام پر گئیں اور ریاستی تشدد کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے خاموشی اختیار کر کے کھڑی ہوگئیں۔ اگلے دن اور بھی خواتین سڑکوں پر نکل آئیں اور پھر وہ شاہین باغ کی طرف روانہ ہو گئیں جو اب ہندوستان کی تاریخ میں خواتین کی طرف سے طویل ترین اجتماعی احتجاج بن گیا ہے۔احتجاج میں لاکھوں افراد شریک ہیں۔ لاکھوں مزید ہندوستان کے مختلف حصوں میں اسی طرح کے دھرنوں کا اہتمام کررہے ہیں۔ کم از کم 100 شہروں میں خواتین ، بچوں اور مردوں کے ذریعہ ہفتے کے 7 دن اور دن کے 24 گھنٹوں کے دھرنے پر بیٹھ کردنیا کو یہ ایک نیا پیغام دیا ہے ۔ دھرنے میں حصہ لینے والوں میں بوڑھا اور جوان ، صحت مند اور جسمانی طور پر معذور ، امیرو غریب ہر کوئی موجود ہے جو ہندوستان کے اتحاد کی ایک بہترین مثال ہے۔اس تحریک نے ہندوستان کے فنکاروں ، ادیبوں ، کارکنوں ، اور دانشوروں کو متاثر کیا جو ہزاروں کی تعداد میں ان خواتین کو خراج تحسین پیش کرنے آرہے ہیں یہ وہی خواتین ہیں جو حالیہ دنوں تک اپنے گھروں کی چار دیواری میں گھریلو ذمہ داریاں نبھا رہی تھیں۔ شاہین باغ ملک کے ہر عزت نفس فرد اور ہر آزادی کے متلاشی کے لئے زیارت گاہ بن گیا۔ہندو قوم پرستوں نے اس تحریک کو بدنام کرنے کی ہر ناپاک کوشش کی ہے۔ اس کے باوجود خواتین نے سی اے اے کے خلاف احتجاج جاری رکھنے اور قومی شہریت رجسٹر اور قومی آبادی کے رجسٹر کے نام سے جانے والی شہریت کی رجسٹری شروع کرنے کی کوششوں کے خلاف اپنے عزم کو ظاہر کیا۔ دوسری جانب ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی شہریت قانون کے بارے میں جھوٹ بولتے رہتے ہیں۔ ان کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے ہندوستان کی پارلیمنٹ میں شہریت کے اس قانون کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پہلے وہ سی اے اے پھر این سی آر متعارف کروائیں گے۔لیکن وزیر اعظم نے اپنی عوامی تقریر جس کو ساری دنیا میں سنا گیا اس میں این آر سی متعارف کروانے کے کسی ارادے کی تردید کی۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ ان کی حکومت نے اپنے اقتدار کے آخری سال میں کبھی بھی این سی آر کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ انہوں نے کسی بھی بڑے حراستی مراکز کے وجود سے بھی انکار کیا حالانکہ ان کی حکومت نے ان کی موجودگی کا اعتراف کیا اور حراستی مراکز کے واضح ثبوت خود میڈیا نے فراہم کئے ہیں۔سی اے اے یا این آر سی کے خلاف عوام کی تحریک غیر منصفانہ قانون کے بارے میں نہیں ہے۔ اس کے بجائے ، یہ ایک ایسی سیاسی ثقافت کے بارے میں ہے جس کا ہند گذشتہ 6 سال سے گواہ ہے جب سے ہندو قوم پرست اقتدار میں آئے ہیں۔ یہ ایک ایسی ثقافت ہے جو نفرت ، مذہب ، ذات ، طبقے اور زبان پر مبنی تقسیم کو فروغ دیتی ہے۔یہ ایک ایسی ثقافت ہے جو ملک کے سیکولر کردار کو تبدیل کرنے اور آئین کو تبدیل کرنے کے لئے قانون اور نفاذ کرنے والی ایجنسیوں کا استعمال کرتی ہے۔ یہ ایک ایسی ثقافت ہے جو تشدد کی تعریف کرتی ہے اور ہندوستان کی آزادی کے معمار گاندھی جی کے قاتل کا احترام کرتی ہے۔ یہ ایک ایسی ثقافت ہے جو اقلیتوں ، خواتین اور نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے افراد کو پسماندہ کردیتی ہے۔سی اے اے یا این آر سی صرف شہریت کا قانون یا اس کی علامت نہیں ہے بلکہ اس کا حتمی مقصد نفرت اور تعصب سے ملک کو تقسیم کرنے والی قوتوں کی ایک سازش ہے اور ہندوستانیوں کا دھرنا اسی کے خلاف ہے۔آزادی کے 70 سالوں کے دوران راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی سربراہی میں ہندو قوم پرستوں نے ملک کو ایک نفرت کی داستان دی ہے جس میں مسلمانوں اور عیسائیوں پر حملوں کے علاوہ نچلی ذات کے اقوام کے خلاف ظلم کی کہانیاں موجود ہیں ۔ اپنے وسیع اور منظم کیڈر کے ساتھ آر ایس ایس نے قانون نافذ کرنے والے اداروں ، تعلیمی اداروں ، اور عدلیہ کے ساتھ بیوروکریسی سمیت ہندوستانی معاشرے کے تمام پہلوؤں کو یرغمال کرلیا ہے۔ ہندوستان کی پارلیمنٹ میں اکثریت کے ساتھ اس بی جے پی حکومت کا خیال ہے وہ ہٹلر کے نازی بالادستی کے فارمولے پر ہندوستان کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرسکتی ہے۔ آر ایس ایس کے بانی اور دیگر اہم لیڈر نظریاتی طور پر ہٹلر سے متاثر تھے، اور انہوں نے ہندوستان میں ایک ہندوراشٹرا کا خواب دیکھا ہوا ہے لیکن اس وقت جو عوامی تحریک چل رہی ہے وہ آر ایس ایس کے ہندوستان پر قبضہ کرنے کے خلاف ہے اور اس تحریک میں خواتین اور نوجوان اپنی زندگی کو داؤ پر لگا رہے ہیںجو نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کے لئے ایک تاریخی تحریک ہے۔
اگر ہندوستان ہندو راشٹر میں بدل جاتا ہے تو ، یہ نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کو بھی ختم کردے گا کیونکہ ہندو راشٹر کے آر ایس ایس ورڑن میں سائنس اور دوسرے مذاہب کے حقوق کا کوئی احترام نہیں ہے۔ اس تحریک کے دنیا کے لئے سنگین مضمرات ہیں ، اور جو بھی شخص انسانی وقار اور عزت نفس پر یقین رکھتا ہے اسے اس کا نوٹس لینا چاہئے۔