ہندوستان میں سیاسی قیدیوں کو ان کے عقائد کی وجہہ سے ستایا جارہا ہے

,

   

مسلم قیدیوں کے گھر والوں نے امریکی کانگریس کو پیش کردہ تفصیلات میں اپنی کہانیاں سنائیں ہیں
واشنگٹن۔ مسلم قیدیاں برائے باطن(پی او سی ایس) کو ہندوستان میں فرضی مجرمانہ مقدمات میں مسلسل مارپیٹ‘ اذیتیں اور دیگر قسم کے تشدد کا حکومت کے مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے مظالم پر بات کرنے کی وجہہ سے سامنا کرنا پڑتا ہے‘ ان کے گھر والوں نے امریکی کانگریس کو پیش کی گئی تفصیلات جس کا عنوان ”قیدی برائے باطن ہندوستان میں“ یہ بات کہی ہے۔

مذہبی اقلیتیں‘ انسانی حقوق کے علمبرداروں‘ صحافیوں‘ طلبہ‘ جہدکاروں کوکس طرح حکومت ہند جیل میں بند کررہی ہے اس کا اندازہ جمعرات کے روز ان لائن منعقد ہونے والے پروگرام کے شرکاء کو اس وقت ہوا جب ایسی پو او سیز کے افراد خاندان نے حقائق کو ان کے سامنے پیش کیاہے


مسعود احمد
مسعود احمد کے بھائی مونس خان نے کہاکہ ”میرا بھی ہمیشہ ناانصافی کے خلاف بات کرنے والا شخص تھا۔ عصمت ریزی اور بے رحمانہ قتل میں ہلاک ہونے والی لڑکی کے گھر والوں سے ملاقات کے لئے وہ گیاتھا۔ اس کا واحد مقصد انصاف کے لئے جدوجہد کرنا تھا‘ انہوں نے اس کو ایسے گرفتا رکرلیاجیسے وہ کوئی دہشت گرد ہے“۔

احمد جو کہ ایک اسٹوڈنٹ لیڈر ہے اترپردیش(یوپی) انتظامیہ نے اکٹوبر2020کو اس وقت گرفتار کرلیاتھا جب وہ ہاتھر س ضلع میں اونچی ذات والے مردوں کی جانب سے عصمت ریزی اور بے رحمانہ قتل میں ہلاک ہونے والے ایک دلت عورت کے گھر والوں سے ملاقات کے لئے جارہاتھا۔

یو اے پی اے ایکٹ کے تحت احمد پر امقدمات درج کئے گئے اور انہیں ضمانت دینے سے انکار کیاجارہا ہے۔ نئی دہلی کی باوقار جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کا وہ طالب علم تھا۔

خان نے پولیس نے ان الزامات کو مسترد کردیا جس میں کہاگیاتھا کہ احمد ہاتھر س میں تشددکو اکسانے کا منصوبہ بنایا ہوا تھا۔

انہوں نے کہاکہ ”ایک سال کا عرصہ گذر چکا ہے اس کے خلاف عدالت میں کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکے۔ عصمت ریزی کی متاثرہ کے افراد خاندان بات کرنے پر اس کے ساتھ دہشت گردوں جیسا سلوک کیاجارہا ہے“۔


خالد سیفی
انسانی حقوق کے علمبردار خالد سیفی جو فبروری 2020سے قید میں ہیں کی بیوی نرگس سیفی نے کہاکہ ”میرے شوہر کو حکومت کے خلاف آواز اٹھانے کی سزا ملی ہے۔

اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے میرا دل دکھ رہا ہے‘ جس کی وجہہ سے ہماری زندگی اجیرن ہوگئی ہے‘ اور ہمیں بے بس ہونے کا احساس پیدا ہوا ہے“۔

سیفی کو کو طبقہ وار ی تشدد کی منصوبہ سازی کے الزام میں گرفتار کیاگیا ہے مگر بدقسمتی سے ہندوستان کی درالحکومت نئی دہلی میں مسلمانوں کے خلاف راست یہ تشدد رونما ہوا تھااو ریہ بات بڑے پیمانے پر سامنے ائی ہے کہ ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے وابستہ ہندوشدت پسندوں نے انجام دیاہے۔

ایک موبائیل ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سیفی بڑی پولیس سے بات کرنے کے لئے رجوع ہوئے‘ جب انہیں حقیقت میں اغوا کرکے دور لے جاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

اگلے دن پولیس انہیں ٹوٹے پیر کے ساتھ ایک وہیل چیر پر ایک عدالت میں پیش کرنے لے کر ائی۔

پولیس نے ان پر یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا۔ سیفی کی بہن کا کہنا ہے کہ ”اس کے تین بچے ہیں۔ وہ تمام اپنے والد کو یا دکررہے ہیں۔

وہ ایک عظیم شخص ہے جو اپنی بیوی اور بچوں کے لئے سب کچھ کرتا ہے۔

ہر روز اس کے بچے اس کے متعلق پوچھتے ہیں۔ ہم اپنے والد کو کب دیکھیں گے؟کب ہم ان کے ساتھ کھانا کھائیں گے؟ کب ہم ان کے ساتھ کھیلیں گے؟اور ہم اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہیں“۔

YouTube video
عمر خالد
ایک سینئر مسلم لیڈر‘ صحافی اور جہدکار سید قاسم رسول الیاس نے تفصیلات پر بات کرتے ہوئے کہاکہ عالمی کمیونٹی کو چاہئے کہ وہ ہندوستان سے سیاسی قیدیوں کی ضمانت پر فوری رہائی کی مانگ کرے۔

انہوں نے کہاکہ ”جس انداز میں ہندوستان آگے بڑھ رہا ہے ہمیں ڈر ہے مزیدسخت حالات درپیش ہوں گے۔ یہ ایک فسطائی حکومت ہے۔ یہ ایک آمرانہ حکومت ہے۔ جمہوریت خطرے میں ہے‘ سیول سوسائٹی خطرے میں ہے“۔

الیاس نے کہاکہ ”ہندوستان ایک امریت میں تبدیل ہوگیا ہے او رہم تمام کے لئے یہ تشویش کی بات ہے کیونکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان ہے۔ اب ہم اس موقف کو گنوا رہے ہیں“۔

الیاس کے بیٹے عمر خالد بھی ستمبر2020سے جیل میں ہیں او رمبینہ دہلی مخالف مسلم تشدد کی منصوبہ سازی میں یو اے پی اے کے تحت ان پر مقدمات درج کئے گئے ہیں۔

ایک تقریر جس کا حوالہ پولیس نے دیا ہے جس میں خالد مخالف مسلم شہریت قانون کے خلاف مظاہرین کو پرامن انداز میں اپنے احتجاج کو جاری رکھنے کی تلقین کرتے ہوئے دیکھائی دے رہے ہیں

صدیقی کاپن
کیرالا سے تعلق رکھنے والے صدیقی کاپن جس کو مسعود احمد کے ساتھ گرفتار کیاگیاتھاخرابی صحت او روالدہ کے انتقال کے باوجود قید میں ہے کی بیوی ریجاناتھ کاپن نے کہاکہ ”بغیر کسی شواہد کے ایک صحافی کے خلاف یو اے پی اے کا استعمال کیاگیاہے۔

ہندوستان میں میدان سے آزادی کے ساتھ کام کرنا ایک صحافی کے لئے اب ممکن نہیں ہے۔ جیل میں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیو ں سے وہ گذرہے ہیں“۔

ہندو وبرائے انسانی حقوق کے شریک بانی راجو گوپال نے رپورٹس کا حوالہ دیا جس میں کہاگیا ہے کہ ہندوستان کی پولیس نے یواے پی اے کے تحت 10,000لوگوں پر مقدمات درج کئے ہیں۔