ہندوستان میں سیکولرازم پر بطور اصول اور عمل خطرے سے دوچار

,

   

بی جے پی کا ’دم چھلہ ‘ بننے سے کانگریس کا مقام صفر : ششی تھرور

نئی دہلی : سیکولرازم بطور اصول اور اس پر عمل ہندوستان میں خطرے سے دوچار ہے اور برسراقتدار اتحاد کوشش کررہا ہے کہ اس لفظ کو دستور ہند سے حذف کردیا جائے ۔ سینئر قائد کانگریس ششی تھرور نے کہاکہ ملک کے سیکولر کردار کے پیچھے پڑنے والی طاقتیں برقرار نہیں رہ سکتی ۔ سیکولرازم صرف ایک لفظ ہے اور اگر حکومت بھی اس کو دستور سے حذف کرنا چاہے تو وہ اب بھی سیکولر دستور برقرار رہے گا ۔ کیونکہ اس کا بنیادی ڈھانچہ سیکولر ہے ۔ تھرور نے اپنی نئی تصنیف ’’ ملکیت کی جنگ ‘‘ میں کہا کہ کانگریس پارٹی بی جے پی کا ’’ دم چھلہ ‘‘ بننے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی کیونکہ ایسا کرنے سے کانگریس کا مقام صفر ہوجائے گا ۔ انہوں نے پیغام دیتے ہوئے کہا کہ قدیم شاندار پارٹی میں ہندوستانی جذبہ سیکولرازم بہت زیادہ جاندار اور اچھی طرح سے ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بعض فراخ دل ہندوستانیوں کیلئے یہ زیادہ تشویش کا باعث نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ اسے حقیقی نہیں سمجھتے لیکن انہوں نے کہاکہ ہم کانگریسی واضح طور پر سمجھتے ہیں کہ ہم بی جے پی کا دم چھلہ بننے کی اجازت نہیں دے سکتے ۔ انہوں نے کہاکہ ہم طویل مدت سے یہ دلیل دیتے آئے ہیں کہ اس کے نتیجہ میں کانگریس کا مقام صفر ہوجائے گا ۔ سابق مرکزی وزیر نے کہا کہ کانگریس اپنی ساکھ یا نوعیت کے اعتبار سے کسی طرح بھی بی جے پی نہیں ہے اور ہمیں بی جے پی بننے کی بھی کوشش نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ ہم ’’ نرم بی جے پی‘‘ بننے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے اور نہ ہم نظریاتی اعتبار سے ایسا کررہے ہیں ۔ انہوں نے پُرزور انداز میں کہا کہ کانگریس ہندو دھرم اور ہندوتوا کے درمیان فرق و امتیاز کو اچھی طرح سمجھتی ہے اور سب کا یکساں احترام کرتی ہے ۔انہوں نے کہاکہ ہندو توا ایک سیاسی حد نہیں ہے جس سے کسی کو خارج کیا جاسکے ۔

انہوں نے کہا کہ برسراقتدار اتحاد ایسا کرنے کی کوشش کرسکتا ہے لیکن یقینی طور پر وہ سیکولرازم کا نام مٹادینے کی اور اس کی جگہ کسی اور فرقہ پرست نظریہ کو پیش کرنے کی جسارت نہیں کرسکتا کیونکہ دستور ہند ہندوستانی سماج کی کسی بھی مذہبی اقلیت کیلئے قابل تبدیل نہیں ہے ۔ سیکولرازم بحیثیت اصول اور اس پر عمل خطرے سے دوچار ہے لیکن مجھے اس کے جلد ہی زوال پذیر ہونے کا امکان نظر نہیں آتا ۔ ہندوستان رواداری اور تکثریت کا عطر اپنے قمیر میں رکھتاہے اور ہندوستان ایسا کسی بھی کوشش کا جارحانہ طور پر مخالف ہے اور اگر ضرورت پیش آئے تو ایسا کرسکتا ہے۔ ششی تھرور نے کہا کہ وہ اعلان کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ردعمل ظاہر کرنے والی شخصیت نہیں ہے جس طرح کے بعض دائیں بازو کے عناصر کہا کرتے ہیں اور نہ وہ انتہا پسند دائیں بازو کی ذہنیت رکھتے ہیں ۔ برسراقتدار اتحاد سے فوری طور پر اس سلسلہ میں دوری اختیار کرتے ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ ایسا کرنا ایک ’’ فرینکسٹائن ‘‘ تخلیق کرنا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ ہندوستانی سماجی ذرائع ابلاغ میں بطور وائرس داخل ہوجائے تو کئی ہلاکتیں کرسکتا ہے اور مکمل طور پر فرقہ وارانہ نفرت کی ایک طاقت ثابت ہوسکتا ہے جو آج کل کے ہندوستان میں بے لگام ہوگئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جیسا کہ وہ کہہ چکے ہیں کہ اگر کچھ لوگ ہندو مسلم ایکتوم ( اتحاد) سے خود ہندوستان میں خوفزدہ ہیں تو وہ اُن سے جاننا چاہیں گے کہ کیا ہندو توا میں عوامی مقبولیت حاصل کرلی ہے ۔ ششی تھرور نے کہاکہ بی جے پی پارلیمان میں اکثریت رکھتی ہے لیکن اُس نے سخت جدوجہد کے ذریعہ اپنی مخالف آوازوں کو کچل دیا ہے ۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ انہیں عام ہندوستانیوں کے درمیان ہندو توا کی وجہ سے کتنی مقبولیت حاصل ہوئی ہے ۔ اس سوال پر کہ کیا پی چدمبرم کے حالیہ تبصرے جس میں انہوں نے دستور ہند کی دفعہ 370کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے اور جس پر بی جے پی تنقید کررہی ہے ۔ تھرور نے کہا کہ اُن کا موقف پارلیمنٹ میں بالکل واضح ہوچکا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ یہ صرف دفعہ 370کی تنسیخ کا مطالبہ نہیں ہے خود ( جواہر ) نہرو جی کہہ چکے ہیں کہ یہ دفعہ عارضی ہے لیکن دستور واضح کرچکا ہے کہ اسے کیسے منسوخ کیا جاسکتا ہے ۔ چنانچہ وہ سمجھتے ہیں کہ دفعہ 370 بحث کا موضوع بن سکتا ہے لیکن وہ اپنے موقف پر اٹل رہیں گے ۔ آخر کار اختلاف کرنے والی آوازیں جمہوری آوازیں نہیں ہے ۔انہوں نے کہاکہ جس انداز میں یہ نافذ کیا گیا جس انداز میں ابنائے وطن اس پر مکمل طور پر عمل کرتے رہے اور ہماری اپنی حکومت دانستہ طور پر ایسا کرتی رہی ۔ جمہوری طور پر حقوق کی ضمانت تمام ہندوستانیوں کو دی جاچکی ہے۔ کیا ملک کے مستقبل کیلئے یہ کافی نہیں ہے ۔ انہوں نے کہاکہ کوئی بھی سیاسی مقصد زبردست پیمانے پر ہندوستانی شہریوں کے حقوق کا اس انداز میں استحصال برداشت نہیں کرسکتا ۔ ششی تھرور نے پُرزور انداز میں یہ مطالبہ دھرایا ۔