ہندوستان کو مذہبی قومیت کے بجائے سب کو متحد کرنے والی قومیت کی ضرورت ہے فرینک اسلام

,

   

اگست کو یوم آزادی کی اپنی تقریر میں وزیر اعظم نریندر مودی نے یہ اعلان اس سال کیا تھا کہ ” ایک ملک اور ایک دستور کی روح ہندوستان میں حقیقت کا روپ دھار رہی ہے اور اس پر ہمیں فخر ہے۔”

وزیر اعظم کی یہ بات صحیح ہے۔ جب وه کہتے ہیں کہ ایک ملک اور ایک دستور ہندوستانی جمہوریت کا مقصد ہونا چاہیے۔لیکن ان کی یہ باتکہ یہ روح اب حقیقت کا روپ دھار چکی ہے، صحیح نہیں ہے۔

ایک قوم بننے کے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے سب کو متحد کرنے والی قومیت کی

ضرورت ہوتی ہے۔جب کے اس کے برعکس پچھلے کچھ سالوں میں ہندوستان میں ایک طرح کے تکبر اور بالادستی پر مبنی مذہبی قومیت کو فروغ ملا ہے۔ میرے علم کی حد تک وزیر اعظم مودی نے خود کو بھی قوم پرست نہیں قراردیا ہے ۔ اور مجھے یقین ہے کہ وه کبھی خود کو ایک مذہبی قوم پرست نہیں قرار دیں گے۔ پھر بھی انہیں اپنے مذہب پر فخر ہے اور اس کا امکان ہے کہ ان کی حکومت پر اس خیال کاکافی زیاده اثر ہو۔اس کےثبوت میں وارانسی میں کاشی وشوناتھ مندر سے گنگا ندی تک ایک چوڑے راستے کی تعمیر کے منصوبہ کو پیش کیا جاسکتا ہے۔

میری پرورش وارانسی ہی میں ہوئی ہے اور گرچہ یہ ہندوؤں کا مقدس شہر ہے لیکن یہ ایک ایسا شہر ہے جہاں سارے مذاہب کے ماننے والے نوجوان آپس میں گھل مل کر کام کرتے اور کھیلتے ہیں اس لیے کہ وه ایک دوسرے کی مدد کرنے کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ اس مذہبی تکثیریت کی تاریخ کوبرقرار رکھنا چاہئے اور اس راستے پر سارے مذاہب کی علامات قائم کی جانی چاہئے۔

ہندوستان میں ره رہے مفکرین اور بین الاقوامی میڈیا سے وابستہ بہت سارے ماہرین نے اے کو ختم کرکے کشمیر پر مکمل 35 اور 370مودی انتظامیہ کےذریعہ آئین ہندکی دفعہ کنٹرول کرنے پر تنقید کی ہے اور وه اس معاملے کو مذہبی قومیت کی ایک مثال کے طور پر لیتے ہیں۔۔ مجھے یہ نہیں پتہ کہ ایسا کہناصحیح ہے یا نہیں لیکن مجھے ایک بات اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ فیصلہ ہندوستان یاسارے ہندوستانیوں کو بحیثیت ایک قوم کے ساتھ نہیں

لاپائے گا۔

ہندوستان میں عمدا َغیر فرقہ وارانہ جمہوریت کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔اسرائیل میں واقع حائفہ یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالر ارنت شانی نے اپنی کتاب

“How India Became Democratic: Citizenship and Making the

Universal Franchise”

میں واضح کیا ہے کہ ہندوستان شروع ہی سے اپنی پوری آبادی کو جو کہ مختلف طبقات سے تعلق رکھتی ہے کو ووٹ دینے کا حق دے کر بااختیار بنارہاہے۔ پورے عزم کے ساتھ بااختیار بنانے کا یہ عمل اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ ہندوستانی جمہوریت کی شناخت مذہبی طور پر نہیں ہے۔

روچیر شرما نے فارن افئیرس میگزین کے اپریل کے شماره میں اپنے مضمون میں ہندوستان کی تکثیریت کو ایک طاقت قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ “ہندوستان میں رنگ، نسل و مذہب کا تنوع اپنے آپ میں ایک سیاسی قوت ہے اور اس طرح کی مضبوط علاقائی شناختوں کے ذریعہ مذہبی اور نسل پرستی پر مبنی قومیت کو لگام دی جاسکتی ہے۔” انہوں نے اپنے مضمون کا اختتام یہ کہتے ہوئے کیا ہے کہ “اب جب کہ پوری دنیا میں جمہوریت روبہ زوال ہے ہندوستان میں یہ فروغ پاررہی ہے۔ “

اس کو باقی رکھنے کے لیے ہندوستانی جمہوریت کو ایک سب کو متحد کرنے والیقومیت کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ سب کو متحد کرنے والی قومیت کسے کہتے ہیں؟ انگریزی کی ڈکشنری میریم وبسٹر کے مطابق قومیت یا نیشنلزم “کسی ایک قوم کا وفادار اور عقیدت مند ہونا یعنی ایک طرح کے قومی شعور کو پروان چڑھانا کہ ایک قوم دوسری ساری قوموں سے اوپر ہے اور اپنی تہذیب اور مفاد کو اس طرح فروغ دینا کہ اس سے دوسری قوموں یا فرقوں کی تہذیب اور مفاد کی نفی ہوتی ہو۔ ” حب الوطنی قومیت کی ایک شکل یا اس کا توام ہے۔

کئی سال پہلے امریکی مورخ تھامس بینڈر نے کہا تھا کہ “قومیت دوسری خصوصیات

کےعلاوه ایک اجتماعی معاہده کا نام ہے جو کہ جزوی طور پر مشترکہ مستقبل کی بنیاد کے لئے ایک مشترکہ تاریخ کو جبرا تصدیق کرانے کا نام ہے۔ “حال ہی میں کولمبیا یونیورسٹی کے سماجیات اور پولٹیکل فلاسفی کے پروفیسر انڈریز ویمرنے لکھا کہ “قوم پرستی کی تمام شکلوں میں دو بنیادی صفات لازمی طور پر ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ پہلے اس قوم کے لوگ یہ سمجھیں کہ وه ایک یکساں شہری حقوق والی اجتماعیت

جس کی تاریخ اور مستقبل کی سیاسی منزل دونوں مشترک ہے کے طور پر اس ریاست پر حکومت کریں ۔ دوسرے یہ کہ وه قوم کے مفاد میں ایسا کریں۔ “

یہ سبھی اقوال ایک سب کو متحد کرنے والی قومیت کی ضرورت اور اہمیت کی تائید کرتے ہیں۔ اور اس معاملے میں ویمر کی رائے زیاده مضبوط ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ ‘گرچہ ہندوستانی جمہوریت کامل اور بے داغ نہیں ہے بلکہ اس سے کوسوں دور ہے۔

لیکن ہندوستانی جمہوریت پوری دنیا کے لیےجہاں اندھیرا مسلسل بڑھتا جارہا ہے ایک مشعل امید جلاسکتی ہے۔ سب کو متحد کرنے والی قومیت کو اختیار کرکے اور اس کومذہبی قومیت پر فوقیت دے کر ہندوستان اس بات کو یقینی بناسکتا ہےکہ مشعل جمہوریت مستقل جلتی رہے

اور اس کی روشنی کا دائره مسلسل وسیع ہوتا رہے۔

٭(فرینک اسلام امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں مقیم ایک کامیاب ہند نژاد تاجر،

مخیر اور مصنف ہیں۔ ان سے ان کے ای میل کے ذریعہ رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

(ffislam@verizon.net