چل بسے وہ دن کہ یاروں سے بھری تھی انجمن
ہائے افسوس! آج وہ صورتِ آشنا ملتا نہیں
اکثر و بیشتر کہا جاتا ہے کہ امریکہ کے صدارتی انتخابات میں کسی دوسرے ملک کی جانب سے مداخلت کی جاتی ہے اور نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوشش بھی ہوتی ہے ۔ ہندوستان میں انتخابات کے تعلق سے کچھ گوشوں میںسوالات پائے جاتے ہیں لیکن کبھی بھی بیرونی فنڈنگ کا مسئلہ سامنے نہیںآیا تھا ۔ تاہم گذشتہ دنوں امریکہ میں صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے انتظامیہ کی جانب سے دنیا بھر میںمختلف اداروں اور ممالک کو امدادی رقومات روکدینے کا فیصلہ اور اس کا اعلان کیا گیا جس کے بعد یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ ہندوستان میں رائے دہی کے تناسب کو بڑھانے کیلئے امریکہ کی جانب سے 21 ملین ڈالرس کی امداد دی جاتی تھی ۔یہ ایک انتہائی اہمیت کا حامل مسئلہ ہے کیونکہ یہ ہندوستان میںانتخابات سے متعلق ہے ۔ جس وقت سے یہ انکشاف ہوا ہے اس وقت سے ہی بی جے پی کی جانب سے یکطرفہ مہم شروع کردی گئی ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ اس پر کانگریس کو جواب دینا چاہئے ۔ بالواسطہ طور پر بی جے پی کا دعوی ہے کہ اس فنڈنگ سے کانگریس نے استفادہ کیا ہے ۔ کانگریس نے جواب دیتے ہوئے واضح کردیا ہے کہ فنڈنگ کے مسئلہ پر وزیر اعظم نریندر مودی کو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے بات کرنے کی ضرورت ہے اوریہ واضح کیا جانا چاہئے کہ امریکہ کی جانب سے جو فنڈز جاری کئے گئے وہ کس کو جاری کئے گئے تھے اور ان سے کس نے استفادہ کیا ہے ۔ کانگریس نے ایسی کسی فنڈنگ سے استفادہ کی تردید کردی ہے ۔ بی جے پی خود بھی ایسے کسی فنڈڈ سے مستفید ہونے سے انکار کر رہی ہے اور دوسری جماعتوں کا یہاں کوئی تذکرہ ہی سامنے نہیں آیا ہے ۔ایسے میں یہ پتہ چلانا بہت ضروری ہے کہ اس فنڈنگ سے آخر کس نے استفادہ کیا اور امریکی اداروں کی جانب سے آخر کس کو یہ فنڈز فراہم کئے گئے اور ان کا استعمال کیا ہوا ہے ۔ ہندوستان میںانتخابات ایک اہمیت کا حامل اور حساس مسئلہ ہے اور اگر اس میں بیرونی فنڈنگ ہوتی ہے تو یہ سبھی کیلئے قابل تشویش ہے ۔ اس پر حکومت کو حرکت میں آنے کی ضرورت ہے اور اس بات کا پتہ چلایا جانا چاہئے کہ یہ فنڈز آخر کس نے اور کہاں استعمال کئے ۔ یہ ایسے سوالات ہیں جو ملک کے عوام کے ذہنوں میں پیدا ہونے لگے ہیں اور ان کا جواب تلاش کیا جانا چاہئے ۔
اس طرح کی اگر فنڈنگ ہوتی ہے اور ان کا ہندوستان کے انتخابات میں استعمال کیا جاتا ہے تو اس کا پتہ چلانا مرکزی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے ۔ مرکز میں نریندر مودی گذشتہ 11 برسوں سے وزیر اعظم ہیں۔ ملک کے وزیر داخلہ امیت شاہ ہیں۔ ان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس طرح کی کسی بھی فنڈنگ کے تعلق سے حقیقت کا پتہ چلائیں۔ امریکہ سے سفارتی سطح پر رابطے کرتے ہوئے یہ پتہ چلایا جائے کہ آخر کس کی ایماء پر یہ فنڈنگ شروع کی گئی تھیں۔ ہندوستان میں ان فنڈز سے کس نے استفادہ کیا ہے اور ان کا استعمال کیا ہوا ہے ۔ اس بات کا بھی پتہ چلانے کی ضرورت ہے کہ آخر امریکہ نے کس وجہ سے یہ فنڈنگ فراہم کی تھی ۔ اس کے مقاصد کیا تھے ۔ انتخابات پر اثر انداز ہونے کیلئے تو یہ فنڈز فراہم نہیںکئے گئے تھے ؟۔ ان سوالات کا پتہ چلانا بہت ضروری ہے اور اس کی ذمہ داری کانگریس پر یا اپوزیشن جماعتوں پر نہیں بلکہ مرکزی حکومت پر عائد ہوتی ہے ۔ بی جے پی مرکز میں گیارہ برس سے اقتدار میں ہے اس لئے اسے فوری طور پر اس کا پتہ چلانے کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور حکومتی سطح پر رابطوں کے ذریعہ اس حساس مسئلہ کی حقیقت کو ملک کے عوام کے سامنے لایا جانا چاہئے ۔ ملک کے عوام کو بھی یہ جاننے کا مکمل حق ہے کہ انتخابات میں کیا کچھ عوامل ہوتے ہیں اور ان پر اثر انداز ہونے کیلئے کیا حربے اختیار کئے جاتے ہیں۔ بیرونی طاقتوں کو ہندوستانی انتخابی عمل سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے اور وہ فنڈنگ کیوں کرتے ہیں ؟۔ بیرونی ممالک یا ادارے کن مقاصد کے تحت یہ فنڈز فراہم کرنے تیار ہورہے ہیں ؟ ۔
اب جبکہ امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ نے کام کاج سنبھال لیا ہے اور ہندوستان و امریکہ کی حکومتوں کے مابین تعلقات بھی بہتر ہیں۔ شخصی روابط بھی بہتر ہونے کے دعوے کئے جاتے ہیں تو ایسے میں حکومت کیلئے یہ کوئی مشکل نہیں ہونا چاہئے کہ وہ ان فنڈز کے تعلق سے امریکہ سے معلومات حاصل کرے ۔ ٹرمپ انتظامیہ کے متعلقہ حکام کے ساتھ مسلسل مشاورت اور سفارتی روابط کے ذریعہ یہ حقائق پتہ کئے جاسکتے ہیں اور ان عناصر کا بھی پتہ چلایا جاسکتا ہے جو ان فنڈز سے مستفید ہوئے ہیں۔ پھر یہ پتہ چلانا مشکل نہیں رہ جائے گا کہ ان فنڈز کو کہیاں اور کن مقاصد کیلئے استعمال کیا گیا تھا ۔ ملک کے عوام میں انتخابی عمل کے تعلق سے شبہات پیدا ہونے اور اعتماد متزلزل ہونے سے قبل یہ حقیقت منظر عام پر لائی جانی چاہئے ۔
مہاراشٹرا ‘ مہایوتی میں دراڑ؟
مہاراشٹرا میں بی جے پی زیر قیادت مہایوتی اتحاد کی حکومت قائم ہوئے ابھی تین ماہ بھی پورے نہیں ہوئے ہیں تاہم ایسے اشارے ملنے شروع ہوگئے ہیں کہ برسر اقتدار اتحاد میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔ خاص طور پر ڈپٹی چیف منسٹر ایکناتھ شنڈے حکومت کے کام کاج سے خوش یا مطمئن نظر نہیں آ رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ان کی ناراضگی اسی وقت سے ہے جب انہیں چیف منسٹر کا عہدہ چھوڑنے کیلئے مجبور کیا گیا تھا ۔ تشکیل حکومت کے بعد سے کچھ واقعات ایسے پیش آنے لگے ہیں جن سے شنڈے ناراض ہیں اور کل انہوں نے ایک بیان دیتے ہوئے بالواسطہ طور پر خبردار بھی کیا ہے ۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ فراموش نہیں کیا جانا چاہئے کہ انہوں نے 2022 میں حکومت تبدیل کروادی تھی ۔ حالانکہ اتحاد میں شامل تمام جماعتیں صورتحال قابو میں رہنے اور کسی طرح کے اختلافات نہ ہونے کا دعوی کر رہی ہیں لیکن سیاسی حلقوں میں یہ قیاس آرائیاں زور پکڑ گئی ہیں کہ مہایوتی میں دراڑ پڑنی شروع ہوگئی ہے ۔ یہ تبدیلی بہت جلد دیکھنے میں آ رہی ہے اور اس کے نتائج کیلئے کچھ وقت ضرور لگ سکتا ہے ۔