ہندو دھرم میں طبقاتی نظام

   

ہندو دھرم ایک پیچیدہ اور غیرمنظم مذہب ہے ، اس کی تفہیم آسان نہیں ہے ، ہندو مذہب میں کوئی کلیسائی نظام نہیں اور وہ واضح و متعین مذہبی اُصول و قوانین کا مجموعہ بھی نہیں ، اس میں بے شمار تضادات پائے جاتے ہیں ، ہندو بے شمار دیوی دیوتاؤں کی پوجا کرتے ہیں ۔ عام طورپر ایک وقت میں جس دیوی اور دیوتا کی پرستش کی جارہی ہو اسے تمام دیوی دیوتاؤں پر فوقیت دی جاتی ہے ۔
ہندو مذہب کو ذات پات سے علحدہ کرنا ناممکن ہے گویاکہ ذات پات کا رواج ایک اعتبار سے ہندو مذہب کی بنیادی خصوصیت ہے ۔ جس ہندو مصلح نے اس امتیاز کو مٹانے کی کوشش کی ہے وہ ناکام و نامراد ہوا کیونکہ ذات پات کا امتیاز ہندوؤں کی گھٹی میں رچا ہوا ہے۔ اس انسانیت سوز تعلیم کا سرچشمہ ان کی مذہبی کتابیں ہیں۔
وید میں لکھا ہے : برہمن ، پرماتما کے منہ سے ، کشتری بازوؤں سے، ویش رانوں سے اور شودر پاؤں سے پیدا ہوا ۔
( رگ وید دسواں باب بھجن نمبر ۹۰۔۳۸ یجروید۔ ۱ تھروید)
وید کے لئے برہمن ، حکومت کے لئے چھتری ، کاروبار کے لئے ویش اور دکھ اُٹھانے کے لئے شودر پیدا کیا ہے ۔ (یجروید۔۳۰:۵)
منوشاستر ہندؤوں کی قانون کی کتاب ہے ۔ اب ہم اس کتاب کے حوالہ جات درج کرتے ہیں جن میں مختلف ذاتوں کے فرائض اور شادی بیاہ کے مسائل درج ہیں:
’’قادر مطلق نے دنیا کی بہبودی کے لئے اپنے منہ سے اور اپنے بازؤوں سے اور اپنی رانوں سے اور اپنے پیروں سے برہمن ، چھتری ، ویش اور شودر کو پیدا کیا ‘‘۔ (باب اول :۳۱)
’’اس دنیا کی حفاظت کے لئے اس نے ان میں سے ہر ایک کے لئے علحدہ علحدہ فرائض قرار دیئے ۔ (باب اول : ۸۷)
’’برہمنوں کے لئے وید کی تعلیم اور خود اپنے اور دوسروں کے لئے دیوتاؤں کو چڑھاوے دینا اور دان لینے دینے کا فرض قرار دیا ۔
( باب اول ۔۸۸)
’’چھتری کو اس نے حکم دیا کہ خلقت کی حفاظت کرے ، دان دے، چڑھاوے چڑھائے ، وید پڑھے اور شہوات نفسانی میں نہ پڑے‘‘۔ (باب اول ۔۸۹)
’’ویش کو اس نے حکم دیا کہ مویشی کی سیوا کرے ، دان دے ، چڑھاوے چڑھائے ، تجارت ، لین دین اور زراعت کرے ‘‘ ۔
( باب اول ۔۹۰)
’’شودر کے لئے قادر مطلق نے صرف ایک ہی فرض بنایا ہے ، وہ ان تینوں کی خدمت کرنا ہے ‘‘ ۔ ( باب اول ۔۹۱)
’’جس طرح شودر اور برہمن عورت سے ایسی اولاد پیدا ہوتی ہے جو ذات سے باہر ہے ، اسی طرح اگر ذات سے باہر چاروں ذاتوں کی عورتوں سے ہم بستر ہوں تو ان کی اولاد بھی ذات سے خارج ہوگی ۔ (باب دہم ۳۰)
’’جو برہمن شودر عورت کو ہم بستر کرتا ہے وہ مرنے کے بعد دوزخ میں جائیگا اور اگر اس سے کوئی اولاد پیدا ہو تو برہمن اپنی ذات سے خارج ہوجاتا ہے ‘‘۔ ( باب سوم ۱۷)
واضح رہے کہ ہندو مذہب میں ہمیشہ برہمنوں کو فوقیت حاصل رہی نیز ویدوں کے زمانوں کے بعد ان کومذہبی قیادت حاصل ہوگئی تھی ۔ انھوں نے اپنی مذہبی قیادت کے جواز میں جو کتابیں تالیف کیں اُنھیں ’’برہمنا‘‘ کہا جاتا ہے اور ان کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان میں حالات اور واقعات کو غلط رنگ میں پیش کیا گیا ہے جس سے برہمنوں کی مذہبی سیادت ثابت ہو اور ان کتابوں کا تعلق ساری ہندو قوم سے نہیں بلکہ صرف ایک ہی طبقہ کے ساتھ مخصوص ہیں ، وہ بھی ذاتی اغراض اور مذہبی پیشوائی حاصل کرنے کیلئے بایں ہمہ ہندو دھرم میں برہمن طبقہ کو تمام ذاتوں میں تفوق اور فضیلت حاصل ہے اور ان کی گزربسر دوسری ذاتوں کے دان پر پر ہے ۔ برہمن کو دان دینا ہندو قوم کا اعلیٰ ترین فرض ہے ۔
’’کسی ایسے شخص کو دان دینا جو برہمن نہیں ہے ثواب کا موجب ہے ، لیکن جو شخص اپنے کو برہمن کہے اُسے دینا دونا ثواب ہے ۔ پڑھے ہوئے برہمن کو دان دینے کا لاکھ مرتبہ ثواب ہوتا ہے اور وید پڑھے ہوئے برہمن کا ثواب لامتناہی ہے ۔
(ماخوذ از تمدن ہندص ۳۳۳)
ہندوستان کی رفتار سیاست بالکلیہ بدل چکی ہے اور وہ روز بہ روز ایک پرخطر راستے کی طرف بڑھ رہی ہے اور جو پالیسیز مرتب کی جارہی ہیں وہ بظاہر عوام دشمن معلوم ہورہی ہیں لیکن اس کے باوجود پوری قوت سے ان کو نافذ کیا جارہا ہے ۔ اس سے بدتر پہلو یہ ہے کہ مجرموں ، قاتلوں اور بدکاروں کو اعلیٰ مناصب اور عزت و اکرام سے نواز جارہا ہے ۔ درج ذیل چند اقتباسات ارباب مجاز کی ذہنیت کو سمجھنے کے لئے ممدومعاون ثابت ہوسکتی ہیں۔
منو لکھتا ہے ’’برہمن کی پیدائش گویا شاستر کا جنم لینا ہے کیونکہ وہ شاستر پھیلانے کے لئے آیا ہے اور برہما کی نشانی ہے ‘‘ ( باب اول ۹۸)
’’جب کوئی برہمن پیدا ہوتا ہے تو وہ دنیا میں سب سے اعلیٰ مخلوق ہے ، وہ بادشاہ ہے کل مخلوقات کا اور اس کاکام ہے شاستر کی حفاظت ‘‘ ۔
(با ب اول ۹۹)
’’جو کچھ اس دنیا میں ہے برہمن کا مال ہے چونکہ وہ خلقت میں سب سے بڑا ہے ، کل چیزیں اسی کی ہیں‘‘ ( باب اول ۱۰۰)
’’برہمن کو ضرورت ہو تو وہ کسی گناہ کے بغیر اپنے غلام شودر کا مال بہ جبر لے سکتا ہے ، اس غصب سے اس پر کوئی جرم عائد نہیں ہوتا کیونکہ غلام صاحب جائیداد نہیں ہوسکتا ۔ اس کی کل املاک مالک کا مال ہے ‘‘ ۔
( باب ہشتم ۴۱۷)
’’جس برہمن کو رگ وید یاد ہو وہ بالکل گناہ سے پاک ہے اگرچہ وہ تینوں عالم کو ناس کردے یا کسی کا بھی کھانا کیوں نہ کھائے ‘‘۔
( باب نہم۲۶۲)
’’بادشاہ کو کیسی سخت ضرورت ہو اور وہ مرتا بھی ہو، تو بھی اُسے برہمنوں سے محصول نہیں لینا چاہئے اور نہ اپنے ملک کے کسی برہمن کو بھوک سے مرنے دینا چاہئے ‘‘ ۔ ( باب ہفتم ۱۳۳)
’’سزائے موت کے عوض میں برہمن کا صرف سر مونڈا جائیگا لیکن شودر ذات کے لوگوں کو سزائے موت دی جائیگی ۔ (باب ہشتم ۳۷۹)
(تفصیل کے لئے دیکھئے : مذاہب عالم کا
تقابلی جائزہ ، پروفیسر چودھری غلام رسول چیمہ )