ہندو ۔ مسلم مباحث

   

بڑھے گی بات اگر تم نے پھیرلیں نظریں
سِتم رسیدہ ہیں ہم لوگ ہم سے پیار کرو

کانگریس لیڈر راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا ملک کی مختلف ریاستوں سے ہوتی ہوئی دارالحکومت دہلی میں داخل ہوچکی ہے ۔ راہول گاندھی اب تک سینکڑوں کیلومیٹر کا سفر پیدل طئے کرتے ہوئے دہلی تک پہونچ چکے ہیں۔ آج انہوں نے دہلی کے تاریخی لال قلعہ کے قریب پارٹی کارکنوں ‘ یاترا کے شرکاء اور عوام سے خطاب کیا ۔ راہول گاندھی کا ایک تبصرہ اہمیت کا حامل ہے کہ انہوں نے ہزاروں کیلومیٹر کا سفر طئے کیا ہے لیکن ملک میں انہوںنے کہیں بھی نفرت اور تشدد نہیںدیکھا ہے ۔ یہ در اصل صرف ٹی وی چینلوں پر مسلسل ہندو ۔ مسلم مباحث کروائے اور دکھائے جا رہے ہیں تاکہ عوام کی توجہ اصل اور بنیادی مسائل سے ہٹائی جاسکے ۔ اکثر و بیشتر ہم نے دیکھا ہے اور سماج کے تمام ہی طبقات کو یہ شکایت عام ہوگئی ہے کہ ملک کے ٹی وی چینلوں کے ذریعہ نفرت کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے ۔ سماج دشمن ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کے مقصد سے اور اہمیت کے حامل مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے ایسا کیا جا رہا ہے ۔ بسا اوقات یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ٹی وی چینلوں پر جو مباحث کئے جا رہے ہیں ان پر عدالتوں نے بھی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے سرزنش بھی کی ہے ۔ بعض گوشوں کی جانب سے ٹی وی چینلوں پر اس طرح کے مباحث کے خلاف عدالتوںمیںدرخواستیں بھی داخل کروائی گئی تھیں تاہم حکومت نے اس پر بھی کوئی موقف اختیار نہیںکیا اور آزادی صحافت کے نام پر چینلوں کو نفرت کا ماحول گرم کرنے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے ۔ ملک میں آج عوام کو کئی طرح کے مسائل درپیش ہیں۔ یہ مسائل اہمیت کے حامل ہیں۔ ان سے عوام کی زندگیوںپر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ان کو حل کرتے ہوئے عوام کو کچھ راحت دی جاسکتی ہے ۔ اس جانب حکومت کی توجہ مبذول کروانی ضروری ہے ۔ تاہم ہمارے جو چینلس ہیں وہ اس جانب توجہ دینے کو تیار نہیں ہیں یا پھر وہ عمدا اس جانب توجہ دینا ہی نہیں چاہتے ۔ وہ صرف ہندو ۔ مسلم مباحث میںدلچسپی رکھتے ہیں اور اسی کے ذریعہ نہ صرف اپنی ٹی آر پی میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں بلکہ وہ ملک کے ماحول کو بھی پراگندہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ در اصل سماج کی کوئی خدمت نہیں کہی جاسکتی بلکہ یہ ملک اور قوم کی بدخدمتی ہی ہے ۔
ملک کے اندر جو صورتحال پیدا ہوئی ہے وہ فوری طور پر ہمارے میڈیا اور چینلس کے علاوہ حکومت کی توجہ کی متقاضی ہے ۔ آج ملک میں مہنگائی اپنی حدوں کو چھو رہی ہے ۔ گذشتہ آٹھ برس میں عوام کی جیبوںپر مسلسل ڈاکہ ڈالا گیا ہے ۔ اندرون و بیرون ملک کے عوامل کی بنیاد پر یہ قیمتیں بڑھائی گئی ہیں۔ عوام کو راحت دینے کی بجائے کارپوریٹس کا ہزاروںکروڑ روپئے کا قرض معاف کیا جا رہا ہے ۔ عوام کو چند روپئے کی راحت یا سبسڈی دینے حکومت تیار نہیں ہے بلکہ جو سبسڈی پہلے سے مختلف اشیا پردی جاتی رہی ہے اس کو بتدریج کم کیا جا رہا ہے ۔ اسے برخواست کرنے کی سمت پیشرفت کی جا رہی ہے۔ اس پر میڈیا میں کوئی مباحث نہیں کئے جاتے ۔ اس پر حکومت سے کوئی سوال نہیں کیا جاتا اور نہ ہی حقیقی صورتحال کو عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے ۔ صرف اور صرف ہندو مسلم کے تعصب کو ہوا دینے کی ہی کوشش کی جاتی ہے ۔ آج ملک کا نوجوان بیروزگار ہے ۔ ملازمتوں کیلئے مسلسل جدوجہد کے باوجود انہیں کوئی روزگار حاصل نہیں ہو رہا ہے ۔ حکومت انہیں پکوڑے تلنے کا مشورہ دیتے ہوئے بری الذمہ ہوجانا چاہتی ہے ۔ لاکھوں نوجوان ہر سال تعلیم مکمل کرتے ہوئے ڈگریاں حاصل کر رہے ہیں اور ملازمت کی تلاش میں نکل رہے ہیں لیکن صرف مایوسی ان کے ہاتھ آ رہی ہے ۔ ان کے مسائل کو اٹھانے والا کوئی نظر نہیں آتا ۔ حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کروانے اور حکومت کو فوری اقدامات کیلئے مجبور کرنے والا کوئی نہیں رہ گیا ہے ۔ اگر اپوزیشن کچھ کوشش کرتی بھی ہے تو میڈیا میں اس کی تشہیر کرنے سے عمدا گریز کیا جاتا ہے ۔
ملک میں تجارتی سرگرمیاں متاثر ہوتی جا رہی ہیں۔ چھوٹی موٹی تجارتیں بند ہونے کے قریب پہونچ گئی ہیں۔ صنعتی پیداوار پر اثر ہو رہا ہے اور یہ بھی بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے ۔ اس کے نتیجہ میں بھی روزگار متاثر ہو رہے ہیں۔ ہر شعبہ میںملازمتوں میںتخفیف کی جا رہی ہے ۔ سرکاری نوکریوں کا سلسلہ عملا بند کردیا گیا ہے ۔ کئی بڑی کمپنیاں اپنے ملازمین کی کٹوتی کرتی جا رہی ہیں۔ یہ انتہائی سنگین مسئلہ ہے لیکن اس پر بھی حکومت توجہ نہیں دے رہی ہے اور نہ ہی میڈیا توجہ دلانے کیلئے تیار ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ میڈیا ہندو ۔ مسلم مباحث کا سلسلہ بند کرے سماج میں اتحاد کو فروغ دے اور عوام کے مسائل کو اٹھانے کی اپنی ذمہ داری پوری کرے ۔
معیشت کے استحکام پر توجہ ضروری
ہندوستان کی معیشت کے تعلق سے دو طرح کے اظہار خیال کئے جاتے ہیں۔ حکومت معیشت کے مستحکم ہونے کا دعوی کرتی ہے تو کچھ گوشوں کی جانب سے معاشی میدان میںپیدا ہونے والے مشکل حالات کو اجاگر کیا جاتا ہے ۔ ہم ایک وسیع و عریض ملک ہیں اور ہماری آبادی بھی بہت بڑی ہے ۔ ایسے میں ہم ملک کی معیشت کے کمزور ہونے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے ۔ معیشت کے استحکام کی ہمارے ملک کیلئے خاص اہمیت ہے ۔ ہم بتدریج ترقی کرتے ہوئے دنیا کی بڑی معیشتوں کیلئے چیلنج بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہم معاشی میدان میں عالمی سطح پر بڑے دعویدار بن سکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اعداد و شمار کے الٹ پھیر سے کام لیتے ہوئے یا پھر حقیقت سے نظریں چراتے ہوئے ایسا نہیں کرسکتے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت حقیقی صورتحال کا سنجیدگی سے جائزہ لے ۔ جو مشکلات اور مسائل پیدا ہو رہے ہیں ان کو دور کرنے پر توجہ مرکوز کرے اور جامع اور مبسوط حکمت عملی کے ساتھ اقدامات کرے تاکہ ہم دنیا میںایک بڑی معیشت بننے کے خواب کوپورا کرسکیں۔