لے دے کے اپنے پاس فقط اک نظر تو ہے
کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم
ہندوستان اور افغانستان کے مابین ہمیشہ سے بہتر تعلقات رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے مراسم ابتداء سے بہتر رہے ہیں اور تجارتی و ثقافتی معاملات بھی دونوں ملکوں میں مستحکم رہے ہیں۔ تاہم افغانستان میں وقفہ وقفہ سے بدلتے حالات اور طالبان کے کٹر موقف کے حامل عناصر کے اقتدار میں یہ تعلقات قدرے متاثر ہوئے تھے۔ ہندوستان نے وہاں کے حالات ہر پر مستقل گہری نظر رکھی اور حالات کے مطابق اپنے موقف کا اظہار بھی کیا ہے جس وقت امریکہ افغانستان میں فوجی موجودگی کے ساتھ مقامی امور پر کنٹرول کررہا تھا اس وقت ہندوستان نے خاموشی اختیار کرنے کو ترجیح دی تھی۔ اس دوران بھی حالانکہ ہندوستان نے افغانستان کی تعمیر جدید میں ممکنہ مدد فراہم کی تھی اور کئی ترقیاتی پراجیکٹس میں افغانستان کی مدد کی تھی۔ افغانستان سے امریکہ کی دستبرداری اور اصلاح پسند طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے دوران بھی ہندوستان نے حالات پر گہری نظر رکھی اور اپنے مفادات کو پیش نظر رکھا۔ ہر بدلتے وقت کے ساتھ ایک بات مشترک رہی کہ افغانستان کی تعمیر جدید میں ہندوستان نے ہمیشہ دلچسپی دکھائی اور افغانستان کے اقتدار اعلی کا ہمیشہ ساتھ دیا۔ افغانستان نے بھی ہندوستان کے دوستانہ رویہ اور تعمیر جدید میں تعاون کو ہمیشہ قدر کی نظر سے دیکھا اور مشکور بھی رہا۔ افغانستان میں طالبان کی موجودہ حکومت ملک کو اب معمول کی راہ پر لانے منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔ عالمی سطح پر اس حکومت کو تسلیم کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ تعلقات کو مسلمہ حیثیت بھی دی جانے لگی ہے۔ ایسے میں ہندوستان بھی افغانستان کے ساتھ تعلقات کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے باہمی اشتراک کے لیے تیار ہوگیا ہے اور دونوں ملکوں کے مابین دوبئی میں باضابطہ بات چیت بھی ہوئی ہے جس میں دونوں نے ہی ایک دوسرے کے احساسات سے اتفاق کیا ہے اور یہ بات باہمی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے اور آگے بڑ’انے میں معاون ثابت ہوگی۔ یہ بات چیت اور تعلقات میں بہتری جہاں دونوں ملکوں کے لیے معاون ہوں گے وہیں سارے جنوبی ایشیاء کے لیے بھی اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کے دوسرے ملکوں پر بھی اثرات یقینی طور پر مرتب ہوسکتے ہیں۔
دونوں ملکوں کے نمائندوں کے مابین دوبئی میں جو بات چیت ہوئی ہے وہ دونوں ہی فریقین کے مثبت رویہ کی عکاسی کرتی ہے۔ ہندوستان نے اپنی جانب سے ایک بار پھر واضح کردیا ہے کہ جنگ زدہ ملک افغانستان کی تعمیر جدید میں وہ دوبارہ سرگرم رول ادا کرنے اور ترقیاتی پراجیکٹس کو آگے بڑھانے کے لیے تیار ہے۔ افغان حکومت اس معاملہ میں تجاویز پیش کرسکتی ہے۔ ہندوستان نے ترقیاتی پراجیکٹس کے آغاز کے لیے صرف ایک شرط رکھی ہے کہ افغانستان کی سرزمین کو مخالف ہند سرگرمیوں کے لیے استعمال کی اجازت نہ دی جائے۔ طالبان ہمیشہ سے اس خیال کے حامی رہے ہیں کہ ہندوستان کے ساتھ باہمی تعلقات کسی تیسرے فریق کی وجہ سے متاثر ہونے نہ پائیں۔ طالبان بھی یہی چاہتے ہیں کہ ان کی سرزمین کو ہندوستان کے خلاف سرگرمیوں کے لیے استعمال کا کسی کو موقع نہ ملے۔ افغانستان، ہندوستین کی سکیوریٹی تشویش سے پوری طرح اتفاق کرتا ہے اور یہی بات دونوں ملکوں کے آپسی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ خاص طور پر ان حالات میں جبکہ افغانستان اور پاکستان کے باہمی تعلقات حالیہ عرصہ میں کشیدگی کا رخ اختیار کرگئے ہیں۔
ہندوستان جنوبی ایشیاء میں سب سے اثردار ملک ہے اور افغانستان اس حقیقت کو تسلیم بھی کرتا ہے۔ دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے ساتھ باہمی تعلقات کی اہمیت کا بھی احساس ہے۔ ایسے میں دوبئی میں دونوں ملکوں کی بات چیت بہت اہم کہی جاسکتی ہے اور اس سے آپسی تعلقات کو استحکام دلانے میں کافی مدد بھی ہوگی۔ جہاں ہندوستان، افغانستان کی تعمیر نو میں اپنی صلاحیتوں سے اہم رول ادا کرسکتا ہے وہیں جنوبی ایشیاء میں امن و سلامتی کی صورتحال کو مستحکم بنانے میں افغانستان کا رول بھی اہمیت کا حامل ہوگا۔ ایسے میں کہا جاسکتا ہے کہ دوبئی کی بات چیت ایک اچھی شروعات ہے اور اس کے دوررس اثرات ہوسکتے ہیں۔