تہران : ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں نئے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ ان میں یہ پابندی بھی شامل ہے کہ کوئی بھی خاتون کسی قریبی مرد رشتہ دار کے بغیر سفر نہیں کر سکے گی۔ یمن میں جنگ گزشہ کئی برسوں سے جاری ہے۔ اس جنگ نے نہ صرف اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے بلکہ ایک انسانی المیہ بھی جنم لے چکا ہے۔ جنگ کی وجہ سے اسے کوئی ‘مثبت پیش رفت‘ تو نہیں کہا جا سکتا لیکن ہوا یہ تھا کہ جنگی حالات میں خواتین کا کردار ابھر کر سامنے آیا تھا۔خواتین کا یہ کردار کسی حکومتی پالیسی کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ یمن کے تباہ کن انسانی حالات کا مطلب یہ تھا کہ خواتین کو معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے روایتی طور پر طے شدہ کردار سے کہیں زیادہ فعال کردار ادا کرنا تھا۔ بہت سی خواتین نے ملک کے طول و عرض کا بے مثال سفر کیا۔تاہم اب خواتین کی یہ سفری آزادی بھی چھینی جا رہی ہے۔ لامیہ ایک نوجوان یمنی خاتون ہیں، جنہوں نے تین سال سے زائد عرصے تک ایک فلاحی تنظیم میں کام کیا ہے لیکن وہ بھی اس بات سے پریشان ہیں کہ شاید جلد ہی اب ایسا ممکن نہ رہے۔ ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغی، جو 2012ء میں منصور ہادی کی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے، اب برسوں کی جنگ کے بعد دارالحکومت صنعا سمیت ملک کے جنوب مغرب پر قابض ہیں۔ انہوں نے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں ‘محرم قانون‘ نافذ کر دیا ہے یعنی کوئی بھی خاتون کسی قریبی مرد رشتہ دار کے بغیر سفر نہیں کر سکے گی۔