یوم جمہوریہ ہند

   

آج ہم یوم جمہوریہ ہند منا رہے ہیں۔ ہندوستان میں جمہوریت کے 75سال کی تکمیل ہوئی ہے اور ہم 76 ویں سال کا آغاز کر رہے ہیں۔ ہندوستان کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ ہمارا ملک جمہوریت میں یقین رکھتا ہے ۔ جمہوریت پر عمل کیا جاتا ہے ۔ یہاں عوام کو جو حقوق حاصل ہیں ان کی وجہ سے جمہوریت کو استحکام دینے میں مدد ملتی ہے ۔ جمہوری عمل کے نتیجہ میں حکومتیں بنتی ہیں۔ حکومتیں زوال کا شکار ہوتی ہیں۔ کسی کو کامیابی ملتی ہے تو کسی کو شکست سے دو چار ہونا پڑتا ہے ۔ ہندوستان دنیا کی دوسری سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے ۔ ہماری جمہوریت ساری دنیا میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھی جاتی ہے ۔ آج جبکہ ہم یوم جمہوریہ منا رہے ہیں تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے ملک کی جمہوریت کو مستحکم کرنے اور اسے مزید منفرد اور مثالی بنانے کا عہد کریں۔ جمہوریت کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے ۔ حالیہ کچھ عرصہ میں دیکھا گیا ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوری عمل کو مذاق بنا کر رکھ دیا گیا ہے ۔ عوام کے حقوق کو تلف کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔ دستور کی بالا دستی پر سوال پیدا کئے جا رہے ہیں۔ دستور کو تبدیل کرنے کی بات کی جا رہی ہے ۔ دستور میں مختلف طبقات کو جو حقوق دئے گئے ہیں ان سے کھلواڑ کیا جا رہا ہے ۔ ان کے حقوق چھینے جا رہے ہیں۔ جمہوریت اس عمل کا نام ہے جس میں عوام کو مقدم رکھا جاتا ہے ۔عوام کے حقوق کی بات کی جاتی ہے ۔ عوام کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے ۔ جمہوریت کے ذریعہ عوام کے ذریعہ عوام کی حکومت منتخب کی جاتی ہے تاہم دیکھا یہ جا رہا ہے کہ حالیہ کچھ برسوں میں جمہوری عمل کا بھی مذاق بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی ہے ۔ افسوس زیادہ اس بات کا ہے کہ یہ ساری کوششیں وہ لوگ کر رہے ہیں جو جمہوریت کے ذریعہ ہی اقتدار پر آئے ہیں۔ جمہوری عمل کی وجہ سے ہی انہیں عوام کے ووٹ ملے ہیں اور وہ عوام کی نمائندگی کیلئے منتخب کئے گئے ہیں۔ اس کے باوجود یہی لوگ جمہوری عمل کو نقصان پہونچانے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ جمہوری عمل کے نام پر ہی جمہوری عمل سے کھلواڑ کیا جا رہا ہے اور جمہوریت کا گلا گھونٹتے ہوئے کامیابی حاصل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور ان کے نتیجہ میں جمہوری عمل کھوکھلا ہو رہا ہے ۔
ہندوستان کا جمہوری عمل وہ ہے جس میں عوام کو کامل یقین ہے ۔ اسی وجہ سے عوام کی کثیر تعداد جمہوری عمل کا حصہ بنتی ہے ۔ جمہوری عمل کے ذریعہ کروائے جانے والے انتخابات میں اپنے ووٹ کا استعمال کرتی ہے اور اپنی پسند کے امیدواروں کو ووٹ دیتے ہوئے انہیں قانون ساز اداروں تک روانہ کیا جاتا ہے ۔ تاہم حالیہ کچھ برسوں میں جو واقعات پیش آئے ہیں جس طرح کے انتخابی عمل دیکھنے کو ملے ہیں ان کے نتیجہ میں جمہوری عمل میں عوام کا یقین متزلزل ہونے لگا ہے ۔ یہ ہماری جمہوریت کیلئے سب سے خطرناک بات ہے ۔ جمہوری عمل میں اگر عوام کا ہی یقین باقی نہ رہے تو پھر اس کی اہمیت اور افادیت کم ہوجاتی ہے ۔ اس عمل پر سوال پیدا ہونے لگتے ہیں۔ جمہوریت میں عوام کا یقین کامل ہونا بہت زیادہ ضروری ہے ۔ جمہوری عمل کو جو مذاق بنایا جا رہا ہے شائد اس کے نتیجہ میں ہی لوگ ووٹ ڈالنے سے گریز کر رہے ہیں۔ بارہا کوششوں اور اپیلوں کے باوجود ہر بار رائے دہی کے تناسب میں کمی آ رہی ہے ۔ دنیا میں جہاں کہیں جمہوری عمل ہے و ہاں اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ تقریبا 100 فیصد رائے دہی ہوپائے تاکہ جو حکومت منتخب ہو وہ حقیقی معنوں میں عوامی حکومت کہلائی جاسکے ۔ ہمارے ملک میں یہ روایت دم توڑ رہی ہے ۔ زیادہ سے زیادہ رائے دہی 65 تا 70 فیصد کے اطراف ہی درج کی جا رہی ہے ۔ یہ جمہور ی عمل سے عوام کی بیزاری کا ثبوت کہا جاسکتا ہے اور یہ قابل تشویش بات ہے ۔ یہ رجحان اور روایت تبدیل ہونے کی ضرورت ہے ۔ عوام کو جمہوری عمل کا حصہ بننے میں کوئی عار محسوس نہیں ہونا چاہئے ۔ حکومتوں اور ملک کے نظام سے انہیں جو کچھ بھی شکایت ہے وہ جمہوری عمل کے ذریعہ ہی دور کی جاسکتی ہے ۔
حکومت ہو یا انتخابی عمل میں شریک ہونے والے جماعتیں ہو یا جمہوریت کے استحکام کیلئے کام کرنے والے ادارے ہوں سبھی کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ملک کی جمہوریت کو مستحکم کیا جائے ۔ جمہوری عمل میں عوام کے اعتماد کو بڑھایا جائے ۔ اسے مستحکم کیا جائے ۔ اسے تقویت دینے کے اقدامات کئے جائیں۔ جمہوریت کے تعلق سے عوام میں شعور بیدار کیا جائے ۔ عوام کو اس کی افادیت کا احساس کروایا جائے ۔ حکومتوں کو بھی یہ یقینی بنانا چاہئے کہ کوئی جمہوری عمل کا مذاق نہ بنانے پائے ۔ جمہوریت کو داغدار کرنے کی کوششوں کو آہنی پنجہ سے کچلا جانا چاہئے ۔ ملک اور ملک کے عوام کے مستقبل کو مستحکم بنانے کیلئے یہ ضروری ہے کہ ملک میں حقیقی جمہوریت کے رواج کو یقینی بنایا جائے اور عوام کا اعتماد بحال کیا جائے ۔
دہلی انتخابات ‘ جھوٹے وعدوں کا عروج
مرکزی زیر انتظام علاقہ دہلی میںانتخابات کیلئے مہم شدت اختیار کر گئی ہے ۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی کی حکومت کو بیدخل کرنے کیلئے بی جے پی ساری کوشش کر رہی ہے ۔ دونوں جماعتوں کے مابین الزامات اور جوابی الزامات کا لامتناہی سلسلہ شروع کردیا گیا ہے ۔ دونوں ہی جماعتیں ایک دوسرے کو ہی اصل مقابلہ قرار دیتے ہوئے اپنی مہم چلا رہی ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ دہلی کے انتخابات میں کانگریس کا کوئی وجود نہیں رہ گیا ہے ۔ گذشتہ دو بار کے نتائج دیکھنے سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ کانگریس کا انتخابی وجود دہلی میں برائے نام رہ گیا ہے تاہم اس بار بی جے پی اورعام آدمی پارٹی ایک دوسرے کے وجود کا دعوی کرتے ہوئے کانگریس کو نظر انداز کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اور یہ ان کی انتخابی حکمت عملی کا حصہ ہوسکتا ہے ۔ تاہم اصل بات یہ ہے کہ دونوں ہی جماعتیں عوام سے اس طرح وعدوں پر وعدے کئے جا رہی ہیں جیسے سب کچھ ان کے ہی ہاتھ میں ہو۔ دہلی میں گذشتہ دو معیادوں سے عام آدمی پارٹی کی بلا شرکت غیرے حکومت چل رہی ہے اس کے باوجود اس نے دہلی میں وہ کچھ نہیں کیا ہے جس کا اس نے وعدہ کیا تھا ۔ یہ حقیقت ہے کہ بہت کچھ کیا گیا ہے لیکن مزید بہت کچھ کرنا باقی ہے ۔ جہاںتک بی جے پی کی بات ہے تو مرکز میں تیسری معیاد کا اقتدار رکھنے اور دہلی مرکزی زیر انتظام علاقہ ہونے کے باوجود دہلی کے مسائل حل کرنے کیلئے بی جے پی نے بھی کوئی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا ۔ اس کے باوجود دونوں ہی جماعتیں بے تحاشہ وعدے کرتے ہوئے عوام کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ دہلی کے عوام کو کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل دونوں جماعتوں کے ٹریک ریکارڈ کو پیش نظر رکھنا چاہئے ۔