رام پنیانی
لا کمیشن کا نوٹیفکیشن اور ملک میں یونیفارم سیول کوڈ نافذ کرنے سے متعلق وزیر اعظم نریندر مودی کی شدت سے وکالت نے پھر سے یو سی سی پر بحث و مباحث کا احیاء کیا ہے۔ حکومت خاص طور پر وزیر اعظم نے جس انداز میں یونیفارم سیول کوڈ کا شوشہ چھوڑا ہے اس سے ملک بھر میں ایسا لگتا ہے کہ ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے (اور ملک کو یونیفارم سیول کوڈ سے بڑا کوئی اور مسئلہ درپیش نہیں ہے، یو سی سی ملک کی بقاء کے لئے ضروری ہوگیا ہے حالانکہ پچھلے لا کمیشن نے صاف طور پر کہہ دیا تھا کہ ہندوستان جیسے ملک میں یونیفارم سیول کوڈ نافذ نہیں کیا جاسکتا) جہاں تک مودی کی یونیفارم سیول کوڈ کے لئے وکالت کرنے کا سوال ہے یہ ابتداء سے ہی بی جے پی کے انتخابی منشور اور ایجنڈہ کا حصہ رہا ہے۔ مثال کے طور پر بی جے پی نے 1996 کے اپنے انتخابی منشور میں ناری شکتی کے تحت یو سی سی کا حوالہ دیا تھا اگرچہ اس نے اپنے انتخابی منشور میں اپنے ایجنڈہ میں یونیفارم سیول کوڈ کے نفاذ کو شامل کیا لیکن کبھی بھی اس نے یکساں سیول کوڈ کے مسودہ کے متن پر کام نہیں کیا اس نے یہ نہیں بتایا کہ طلاق، نان و نفقہ، وراثت یا ترکہ سے متعلق حقوق اور بچوں کو گود لینے یا دینے اور بچوں کو اپنی سرپرستی میں رکھنے کے کیا قوانین ہوں گے۔ امریکہ سے واپس ہونے کے ساتھ ہی مودی نے مدھیہ پردیش میں یونیفارم سیول کوڈ کی شدت سے وکالت کی اور یو سی سی کے خلاف سب سے بڑا ردعمل آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی طرف سے آیا اور دوسری اہم مسلم تنظیموں نے بھی اس کی شدت سے مخالفت کی۔ وزیر اعظم جس شدت سے یو سی سی کی مخالفت کررہے ہیں مسلم پرسنل لا بورڈ اور مسلم تنظیمیں اسی شدت کے ساتھ اس کی مخالفت کررہے ہیں۔ اس مرتبہ اچھی بات یہ ہیکہ یو سی سی کے نفاذ سے متعلق منصوبوں کی قبائیل گروہوں کے ساتھ ساتھ سکھ اور دوسرے بھی مخالفت کررہے ہیں۔ کیندریہ سرنا سمیتی کے ایک عہدہ دار سنتوش ترکے یونیفارم سیول کوڈ کی مخالفت کرتے ہوئے کچھ یوں کہتے ہیں ’’یہ (یو سی سی) ہماری شادی بیاہ، طلاق، ترکہ اور اراضیات کی منتقلی سے متعلق رسم و رواج اور طور طریقوں کو متاثر کرے گا اور ہمارے Personal Laws میں مداخلت کا باعث بنے گا ایک اور آدی واسی گروپ کے لیڈر رتن تیر کے جو جھارکھنڈ سے تعلق رکھتے ہیں کہتے ہیں ’’ہم نہ صرف لاکمیشن کو ای میلس روانہ کرتے ہوئے یونیفارم سیول کوڈ کی مخالفت درج کروائیں گے بلکہ سڑکوں پر احتجاج بھی منظم کریں گے۔ اس ضمن میں حکمت عملی طے کرنے کی خاطر قبائیلیوں کے اجلاس طلب کئے جارہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یونیفارم سیول کوڈ کسی بھی طرح ملک اور عوام کے حق میں نہیں ہے یہ دراصل دستور کے پانچویں اور چھٹویں شیڈول کی دفعات کو کمزور کردے گا۔ واضح رہے کہ بی جے پی کی زیر قیادت قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) میں شامل جماعتیں اور شمال مشرقی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے بعض بی جے پی قائدین نے اعلان کردیا ہیکہ وہ یونیفارم سیول کوڈ کی مخالت کریں گے۔ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے، پارلیمنٹ کی اسٹانڈنگ کمیٹی برائے قانون کے سبرارہ سشیل مودی نے خود قبائیلی علاقوں بشمول شمال مشرق کے قبائیلی گروپوں میں یو سی سی کے نفاذ پر سوال اٹھایا ہے جہاں تک سکھوں کا سوال ہے، شرومنی اکالی دل (SAD) نے پہلے ہی یونیفارم سیول کوڈ کی شدت سے مخالفت کی ہے۔ اکالی لیڈر گرجیت سنگھ تلونڈی نے شرومنی گردوارہ پربندھک کمیٹی (SGPC) پر زور دیا ہیکہ وہ لاکمیشن سے اس مسئلہ پر بات کرے، دوسری طرف ترقی پسند مسلمانوں کے (نام نہاد) گروپ انڈین مسلمس فار سیکولر ڈیموکریسی نے مذہبی غیر جانبداری پر مبنی ’’پرسنل لاس‘‘ کی وکالت کی ہے۔ اگر آپ کسی بھی مذہب کے Personal laws کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ قوانین، ملک کے دیوانی اور فوجداری قوانین سے مختلف ہوتے ہیں اور یہ دیوانی و فوجداری قوانین سارے ملک میں یکساں ہوتے ہیں جبکہ ہندوستان جس میں بے شمار مذاہب اور تہذیبوں کی نمائندگی کرنے والے لوگ رہتے ہیں ان کے مذہبی قوانین مختلف ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں جہاں تک Personal laws کا سوال ہے انہیں انگریزوں نے مختلف مذاہب کے اسکالرس سے صلاح و مشورہ کے بعد بنائے تھے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ خود ہندوؤں میں یکسانیت (یکساں قوانین) نہیں پائی جاتی، ہندو معاشرہ میں میتکشرا اور دیا بھاگ جیسے دو الگ الگ قوانین پائے جاتے ہیں آپ کو بتادیں کہ ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو Personal law میں صنفی امتیاز خاص طور پر وراثت کے معاملہ میں صنفی امتیاز اور صنفی ناانصافی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر بی آر امبیڈکر پر زور دیا تھا کہ وہ ہندو کوڈ میں اصلاحات کے لئے تجاویز پیش کریں اور ہندو معاشرہ میں اصلاحات کے لئے قانون سازی کے لئے خودی کام شروع کریں جبکہ تقسیم کے فوری بعد مسلم پرسنل لا میں اصلاحات کے لئے کام شروع نہیں کیا گیا کیونکہ ملک کی تقسیم کے دوران جو خونریز فسادات ہوئے اور ہولناک تشدد برپا ہوا ان حالات میں حکومت اقلیتی برادری پر اپنی مرضی مسلط کرنا نہیں چاہتی تھی کیونکہ اس وقت حکومت شائد یہ سمجھتی تھی کہ کہیں اس طرح کے اقدامات سے اقلیتوں میں غلط پیغام نہ جائے بعد میں مسلمانوں کے قوانین میں کچھ ضابطہ بندی کی گئی اور مودی حکومت میں ایسا قانون بنایا گیا جس کے تحت طلاق ثلاثہ (ایک ہی نشست میں تین طلاق) کو غیر دستوری، مستوجب سزا جرم قرار دیا گیا جہاں تک مودی حکومت کی جانب سے طلاق ثلاثہ کو قابل سزا جرم قرار دینے کا سوال ہے یہ سچ ہیکہ حکومت نے فوجداری دفعات، عوام کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے اور مسلمانوں کو قانون شکن (قانون توڑنے والوں) کی حیثیت سے پیش کرنے کے لئے متعارف کروائے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہیکہ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے منصفانہ اور مساویانہ انداز میں قانون متعارف کروانے کی کوشش کی اور انہوں نے صاف صاف طور پر ایک نہیں متعدد مرتبہ اس خیال کا اظہار کیا کہ ہندو پرسنل لاس میں خواتین کے ساتھ امتیاز برتا گیا ہے۔ ان کے ساتھ صنفی امتیاز کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ صنفی ناانصافی کی گئی ہے چنانچہ جب امبیڈکر نے Hindu Code Bill بنایا (صنفی عدم مساوات) کی بنیاد پر تب اس کی شدت سے مخالفت کی گئی۔ نتیجہ میں بل کو مرحلہ وار انداز میں پیش کیا گیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بل کمزور ہوگیا۔ ہندوؤں کے قدامت پسند حلقوں نے جن کی قیادت ہندو قوم پرست طاقتیں کررہی تھیں اس وقت ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے استعفی کا مطالبہ کیا جب ڈاکٹر امبیڈکر نے ان گروپوں کی طوفان بدتمیزی اور ان کے خلاف توہین و ہتک آمیز رویہ دیکھا تو کافی دلبرادشتہ ہوئے اور بالآخر انہوں نے کابینہ سے استعفے دے دیا۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اور ان کے پیش کردہ ہندو کوڈ بل کی مخالفت میں گیتا پریس کا کلیان میگزین بھی سرگرم رہا (یہ وہی گیتا پریس ہے جسے حال ہی میں گاندھی پیس پرائز دیا گیا جس پر گاندھیائی قائدین اور کانگریس نے حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے یہ یاد دلانے کی کوشش کی کہ گیتا پریس گاندھی جی کا شدت سے مخالف تھا) اس پریس کی جانب سے شائع ہونیوالے کلیان میگزین میں ہندو کوڈ بل کا اصل مسودہ شائع ہوا تھا۔ اس میگزین میں امبیڈکر کے خلاف کافی زہر اگلا گیا تھا اور کچھ یوں لکھا گیا ’’اب تک ہندو عوام ان کی باتوںکو سنجیدگی سے لے رہے تھے لیکن اب اس بات کی تصدیق ہوچکی ہے کہ امبیڈکر کا پیش کردہ ہندو کوڈ بل، ہندو دھرم کو تباہ کرنے ان کی سازش کا بہت اہم حصہ ہے، اگر امبیڈکر جیسا شخص ان کا وزیر قانون برقرار رہتا ہے تو وہ ہندوؤں کے لئے ایک شرم کی بات ہوگی ، ایک بڑی توہین ہوگی اور ہندو دھرم پر ایک دھبہ ہوگا‘‘ آپ کو بتادیں کہ 70 کے دہے کے اوائل میں متھرا ریپ کیس کے بعد خاص طور پر تحریک نسواں کی جانب سے یو سی سی کا مطالبہ کیا گیا اور اُس ریب کیس کے بعد اس میں شدت آئی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ یکساں سیول کوڈ انصاف کو یقینی بنائے گا۔ آر ایس ایس کے دوسرے سرنچالک گولوالکر نے آرگنائزر کے کے آر ملکانی کو دیئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں (23 اگست 1972) یو سی سی آئیڈیا کی مخالفت کی تھی اور ان کی مخالفت ملک کی متنوع تہذیب کی بناء پر تھی، ایسے میں یہ کہنا کہ یو سی سی سے قومی اتحاد مستحکم ہوگا بالکل غلط ہے۔ اب امریکہ کو ہی مثال کے طور پر لیجئے جہاں 50 ریاستیں ہیں اور ہر ریاست کا قانون الگ الگ ہے ہمارے ملک کی حقوق نسواں کے تحفظ میں سرگرم خواتین کی کئی تنظیمیں یو سی سی کی بجائے بتدریج صنفی انصاف کی بات کررہی ہیں۔ ایسے میں کیا طلاق، وراثت (ترکہ) اور کسی بھی قانون کے نفاذ کے ذریعہ بچوں کو اپنی سرپرستی میں رکھا جاسکتا ہے؟ یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف ایک حکم کے ذریعہ یکساں سیول کوڈ نافذ کیا جاسکتا ہے؟ کیا یو سی سی نافذ کرکے رسم و رواج اور روایتی طریقوں کو پس پشت ڈالا جاسکتا ہے۔ آج یو سی سی کے نفاذ کی نہیں بلکہ مختلف برادریوں کے اندر ہی اصلاحات اور صنفی انصاف کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہیکہ مختلف برادریوں میں مردوں کی اجارہ داری ہے۔ خواتین کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ قانون بنانا ہوتو تمام برادریوں کی خواتین کو صنفی انصاف دلانے اور ان کے ساتھ برتے جانے والے امتیاز کے خاتمہ کے لئے بنانا چاہئے۔ بی جے پی خواتین کو بااختیار بنانے کی باتیں کرتی ہیں لیکن 9 سالہ اقتدار میں اس نے خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے کچھ نہیں کیا یہ بھی حقیقت ہیکہ اس عرصہ میں اقلیتوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ گیا ہے۔ بی جے پی کا مقصد صرف اور صرف مذہبی خطوط پر عوام کو تقسیم کرنا ہے۔ پہلے یو سی سی کا مسودہ منظر عام پر لایا جائے اس ضمن میں مسلمانوں کو بھی احتیاط سے کام لینا ہوگا۔