یوپی، کشمیر اور دہلی کے بعد حیدرآباد میں بھی بلڈوزر کا استعمال

   

مسلمان محفوظ تاہم سیاسی اقلیت خطرہ میں

حیدرآباد۔22فروری(سیاست نیوز) ملک میں خوف و ہراس پیدا کرنے کے لئے کی جانے والی بلڈوزر کی سیاست شہر حیدرآباد بھی پہنچ چکی ہے اور گذشتہ ایک ہفتہ کے دوران کی جانے والی کاروائیوں کو دیکھیں تو اس بات کا اندازہ ہوجائے گا کہ تلنگانہ میں بھی اترپردیش ماڈل اختیار کرلیا گیا ہے۔حکومت تلنگانہ نے سلم بستیوں کی جگہ ڈبل بیڈ روم مکانات کی تعمیر کا اعلان کیا تھا لیکن اب سلم بستیوں کو ہی نہیں بلکہ برسوں قبل کی تعمیرات کوغیر قانونی قرار دیتے ہوئے اجاڑ دیا جانے لگا ہے۔ ریاست تلنگانہ میں حکومت کی جانب سے چلائے جانے والے بلڈوزر نے ایک ہفتہ میں سینکڑوں مکینوں کو ان کے اپنے گھروں سے بے دخل کردیا ہے اور وہ اپنے ساز و سامان کے ساتھ سڑک پر آچکے ہیں۔ اترپردیش اور دہلی میں عدالتی احکامات اور حکومت و بلدیہ کی کاروائیوں کے نام پر چلائے جانے والے بلڈوزر سے عوام میں خوف پیدا کرتے ہوئے جس طرح نشانہ بنایا جارہا ہے اسی طرح اب شہر حیدرآباد میں بھی بلڈوزر کا استعمال کیا جانے لگا ہے۔ ایرم منزل کالونی کے قریب واقع طویلہ بستی کو رات دیر گئے بھاری پولیس کی نگرانی میں تخلیہ کرواتے ہوئے بلڈوزر چلا دیا گیا۔ حلقہ اسمبلی خیریت آباد میں کی گئی اس کاروائی کے دوران آر ڈی او ‘ 4 تحصیلدار کے علاوہ 600سے زائد پولیس اہلکار اور 4پولیس اسٹیشن کا عملہ موجود تھا جو کہ مزاحمت کاروں کو روکنے میں مصروف رہا ۔ ریاستی حکومت کی جانب سے کی گئی اس کاروائی کے سلسلہ میں متاثرین کا کہناہے کہ ریاستی حکومت نے انہیں جو پٹہ الاٹ کیا تھا وہ بغیر کسی نوٹس اور کاروائی کے واپس لیتے ہوئے ان کے گھروں پر بلڈوزر چلا دیئے گئے ہیں۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ وہ برسوں سے اس جگہ مقیم ہیں اور اس علاقہ میں اسکول کے علاوہ مندر وغیرہ بھی موجود ہے ‘ تمام مکینوں کے آدھار اور ووٹر آئی ڈی کارڈ اسی علاقہ کے ہیں اور ان کے مکانات میں برقی میٹر موجود ہیں لیکن اس کے باوجود جو کاروائی کی گئی ہے وہ ظالمانہ ہے۔ اس کاروائی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کارپوریٹر خیریت آباد مسز وجیہ ریڈی جب طویلہ بستی پہنچی تو انہیں رات دیر گئے سخت مزاحمت کے بعد حراست میں لے لیا گیا اور دن میں 11 بجے ان کی رہائی عمل میںآئی ۔ اسی طرح گذشتہ ہفتہ اے سی گارڈس میں کی گئی کاروائی کے دوران بھی سینکڑوں خاندانوں کو عدالتی احکامات پر کی جانے والی کاروائی کے نام پر نشانہ بنایا گیا۔برسوں سے اے سی گارڈ میں مقیم ان شہریوں کے مکانات کو 2012 کے عدالتی احکامات کو بنیاد بناتے ہوئے راتوں رات منہدم کردیا گیا اور سینکڑوں افراد کو بے گھر کرتے ہوئے ان کے سامان کو گھروں سے باہر پھینک دیا گیا۔ بلڈوزر کی یہ کاروائی قلب شہر میں واقع ان آبادیوں میں کی گئی جو کہ گنجان آبادیوں میں شمار کی جاتی ہیں لیکن اس کے باوجود ان کاروائیوں کے متعلق کسی بھی ذرائع ابلاغ ادارہ نے متاثرین کے موقف کومنظر عام پر لانے کی زحمت گوارہ نہیں کی ۔اے سی گارڈس بستی واڑہ میں کی گئی کاروائی کے دوران15تا20 مکانات کو منہدم کیا گیا اور اس کاروائی سے قبل بھی کوئی نوٹس جاری نہ کئے جانے کا الزام عائد کیا جا رہاہے۔ ان کاروائیوں کو دیکھتے ہوئے متفکر شہریوں نے اسے دہلی کے تغلق آباد‘ جہانگیرآباد اور مہرولی کی کاروائیوں کی طرح قراردیا ہے ۔ متفکر شہریوں کا کہناہے کہ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران ملک کی مختلف ریاستوں کی ہائی کورٹ کی جانب سے یہ کہا گیا ہے کہ غیر مجاز قبضوں کو یا تعمیرات کو برخواست کروانے کے لئے ’’ بلڈوزر حل نہیں ہے‘‘ اس کے باوجود شہر حیدرآباد کے علاوہ نواحی علاقوں میں کی جانے والی بلڈوزر کاروائیوں سے شہریوں میں بے چینی پائی جانے لگی ہے اور وہ استفسار کر رہے ہیں کہ ریاست میں بھارت راشٹر سمیتی کی حکومت ہے یا یوگی حکومت !اترپردیش سے شروع ہونے والی یہ بلڈوزر کاروائیاں دہلی ‘ مہاراشٹرا‘ بنگال ‘ جموں و کشمیر سے ہوتے ہوئے اب تلنگانہ میں پہنچ چکی ہیں اور حکومت ترقی کے نام پر غریب شہریوں کی بستیوں کو ان کی بازآبادکاری کے بغیر اجاڑنے میں مصروف ہے۔دو یوم قبل شمس آباد کے علاقہ میں بھی بلدیہ کے تعاون سے اسی طرح کی بلڈوزر کاروائی کی گئی ‘ اس سے قبل شہر حیدرآباد میں سوشل میڈیا پر پہاڑی شریف کے قریب ایک مکان کی باؤنڈری وال کو پولیس کی نگرانی میں بلڈوزر کے ذریعہ منہدم کئے جانے کی ویڈیو وائرل ہوئی اور اس معاملہ میں بھی کہا جا رہاہے کہ ایک شکایت کی بنیاد پر یہ کاروائی کی گئی ہے ۔ گذشتہ برس کے اواخر میں شمس آباد میں واقع ایک مسجد کو منہدم کرنے کی کاروائی بھی رات دیر گئے بھاری پولیس کی جمعیت کو تعینات کرتے ہوئے انجام دی گئی تھی اور اس کے بعد سے راتوں رات بلڈوزر کے ذریعہ بستیوں کو اجاڑنے کا ایک سلسلہ شروع ہوچکا ہے اور اس مسئلہ پر تمام گوشوں سے مکمل خاموشی اختیار کی گئی ہے۔م