پولیس کو روزانہ رپورٹنگ کی ہدایت‘علماء کونسل کے قومی صدر کا شدید ردعمل
لکھنؤ۔8 ؍نومبر(ایجنسیز) اتر پردیش میں تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں پر ایک بار پھر گہری نظر رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ ڈی جی پی ہیڈکوارٹر کی جانب سے تمام زونل افسران کو اس سلسلے میں ہدایات جاری کی گئی ہیں۔اس کے تحت ہر ضلع سے کہا گیا ہے کہ وہ تبلیغی جماعت سے وابستہ افراد کی آمد کی تاریخ، جماعت میں شامل ہونے والے ارکان کی تعداد، روانگی اور واپسی کی تفصیلات روزانہ فراہم کریں۔ اسی طرح ضلع سے باہر جانے والے جماعتی ارکان کی تاریخیں اور تعداد بھی روزانہ رپورٹ کی جائیں۔انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی) لاء اینڈ آرڈر ایل آر کمار نے 29 اکتوبر 2025 کو ایک ہدایات نامہ جاری کیا جس کے تحت تمام زونل اے ڈی جیز، پولیس کمشنریٹس کے پولیس کمشنرز اور اضلاع کے ایس پیز و ایس ایس پیز کو تبلیغی جماعت پر مسلسل نظر رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ہدایات نامہ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ تبلیغی جماعت کے ارکان سے متعلق تمام معلومات ہر روز صبح 8 بجے تک آئی جی رینج کے ذریعے اے ڈی جی زون کو بھیجی جائیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا جائے کہ جماعت کے ارکان کہاں سے آئے، کہاں قیام کیا اور اگر ضلع کے مقامی افراد جماعت میں شامل تھے تو وہ کہاں روانہ ہوئے۔علما کونسل کے قومی صدر امیر رشادی مدنی نے حکومت کے اس فیصلے پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کہ حکومت کے پاس عوامی بہبود یا ترقی سے متعلق کوئی ایجنڈا نہیں بچا اس لیے وہ مذہبی معاملات کو اچھال کر عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ چاہے مرکزی ہو یا ریاستی حکومت دونوں کا مقصد مسلمانوں کے مذہبی امور میں مداخلت کرنا اور ایک مخصوص طبقہ کو خوش رکھنا ہے۔امیر رشادی مدنی نے واضح کیا کہ تبلیغی جماعت کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔یہ جماعت لوگوں کو دین کی دعوت دیتی ہے، نماز، روزہ، صدقہ اور نیکی پر زور دیتی ہے اور برے کاموں سے بچنے کی تلقین کرتی ہے۔انہوں نے یاد دلایا کہ COVID19 وبا کے دوران بھی تبلیغی جماعت کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی تھی مگر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے تمام مقدمات کو خارج کر دیا۔سابق ڈی جی پی سلکھان سنگھ نے کہا کہ پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیاں عام طور پر اس نوعیت کی نگرانی نہیں کرتیں۔ایسی نگرانی صرف اسی وقت کی جاتی ہے جب کوئی انٹیلی جنس ان پٹ یا مخصوص اطلاع موصول ہو یا کسی جرم یا واقعہ کا اندیشہ ہو۔ تبلیغی جماعت جیسے مذہبی گروپ پر عام حالات میں نظر رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں بنتی۔سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدامات بے روزگاری، تعلیم، صحت اور مہنگائی جیسے بڑے مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے کیے جاتے ہیں۔ حکومت وقتاً فوقتاً ایسے مذہبی معاملات کو موضوع بنا کر اپنے ووٹ بینک کو مطمئن رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔