یوکرین جنگ بندی کیلئے پہل

   

امریکہ کی ایماء پر یوکرین ۔ روس جنگ بندی کیلئے کوششیںشروع کردی گئی ہیں۔ امریکہ نے جنگ بندی کیلئے یوکرین پر دباؤ ڈالنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی ۔ وائیٹ ہاوس کے اوول آفس میں صدر زیلنسکی کے ساتھ انتہائی نامناسب رویہ اختیار کیا گیا ۔ انہیں گھیرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی تھی ۔ یوروپی ممالک نے بھی حالانکہ اس طرز عمل کو پسند نہیں کیا تھا تاہم وہ بعد میں بالواسطہ طور پر ڈونالڈ ٹرمپ کی دباؤ کی پالیسی کو قبول کرنے کیلئے زیلنسکی کو ہی تیار کرنے لگ گئے تھے ۔ ٹرمپ اور امریکی انتظامیہ نے زیلنسکی کے ساتھ انتہائی ترش رویہ اختیار کیا تھا جبکہ یوروپی ممالک اور خاص طور پر برطانوی وزیر اعظم اسٹارمر نے نرم لہجے میں پرانی شرائط ہی کو تسلیم کرنے کیلئے زیلنسکی کو تیار کرلیا تھا ۔ جہاں زیلنسکی نے امریکہ کے مطابق روس کے ساتھ جنگ بندی کیلئے تیار ہونے کا اشارہ دیا تو ایسا لگتا ہے کہ اب روس کی جانب سے مزید دباؤ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ کہا گیا ہے کہ امریکہ نے روس سے یوکرین جنگ بندی کیلئے بات چیت کا درپردہ آغاز کیا تھا ۔ اب روس میں صدر پوٹن کے قریبی رفیق کار نے اس جنگ بندی کے منصوبہ کی مخالفت کی ہے ۔ پوٹن کے رفیق کار کا کہنا تھا کہ اس تجویز میںروس کیلئے کچھ بھی نہیں ہے جبکہ ایک ماہ کی جنگ بندی در اصل یوکرین کیلئے راحت فراہم کرنے کی پہل ہے ۔ ڈونالڈ ٹرمپ جس وقت سے دوسری معیاد کیلئے امریکی صدر منتخب ہوئے ہیں وہ روس اور پوٹن کے تعلق سے نرم رویہ اختیار کرتے دکھائی دئے ہیں اور اسی لئے انہوں نے یوکرین اور زیلنسکی پر دباؤ بنانے کی ہر ممکن کوشش کی تھی ۔ تاہم اب جبکہ روس کی جانب سے جنگ بندی کی تجویز کو قبول کرنے سے عملا انکار کردیا گیا ہے تو پھر دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ اور ان کا انتظامیہ پوٹن کے تعلق سے کیا رویہ اختیار کرتا ہے ۔ کیا پوٹن پر بھی دباؤ ڈالا جائیگا اور کیا انہیں بھی دھمکیوں سے مرعوب کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ ٹرمپ اور ان کا انتظامیہ یوکرین میں اپنے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کام کر رہا ہے اور وہاں جنگ بندی کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ یہ یوکرین سے زیادہ امریکہ کے مفاد میں ہے ۔
یوکرین کی جو جنگ ہے اس نے اب تک جو تباہی مچائی ہے وہ ساری دنیا پر عیاں ہے ۔ اس کے اثرات دنیا کے مختلف ممالک پر بھی دیکھنے میں آئے ہیں۔ اس کے علاوہ اس جنگ نے روس اور یوروپ کے درمیان فاصلوں کو مزید بڑھا دیا ہے ۔ ان ممالک کے مابین جو تعلقات رہے تھے وہ بڑی حد تک متاثر ہو کر رہ گئے ہیں۔ اس جنگ کو انسانیت کے تناظر میں دیکھتے ہوئے اس کو ختم کرنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے ۔ جنگ کے نتیجہ میں دنیا بھر میں مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔ پٹرولیم اشیا کی قیمتوںکا مسئلہ ہوا ہے تو اناج کی سربراہی اور منتقلی کا عمل بھی متاثر ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ یوکرین اور روس میں بھی بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے ۔ انسانوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ بے شمار ہلاکتیں ہوئی ہیں ۔ ایسے میں اس جنگ اور اس کے خاتمہ کو ممالک کے فائدے کے مطابق دیکھنے سے گریز کیا جانا چاہئے ۔ یقینی طور پر بین الاقوامی سطح پر ممالک کے ایک دوسرے سے مفادات وابستہ ہوتے ہیں لیکن جنگ کو اس تناظر میں دیکھنے سے گریز کیا جانا چاہئے ۔ اس کے علاوہ جنگ بندی کی تجویز پر پیشرفت کرتے ہوئے مظلوم کا بھی احساس کیا جانا چاہئے ۔ طاقتور کی زبان میں بات کرنے سے گریز کرتے ہوئے فریقین سے انصاف کرنے کیلئے کوشش کی جانی چاہئے ۔ سیاسی اور معاشی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کسی بھی تجویز یا منصوبہ کو آگے بڑھایا جاتا ہے تو اس کے وہ نتائج برآمد ہونے کی امید نہیں کی جاسکتی جو برآمد ہونے چاہئیں۔
امریکہ میں صدر ٹرمپ ہوں یا دوسرے ذمہ دار اور فکرمند ممالک ہوں ان سب کو سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ جنگ ختم کرنے سب کیلئے اولین ترجیح ہونی چاہئے ۔ جنگ ختم کرنے کے نام پر طاقتور کو مزید طاقتور بنانے اور مظلوم کی آواز دبانے کی کوشش نہیں کی جانی چاہئے ۔ ہر دو کو راحت دینے کیلئے ہمدردانہ موقف اختیار کرتے ہوئے جنگ ختم کروائی جاسکتی ہے اور کروائی جانی چاہئے ۔ ٹرمپ اپنے جارحانہ تیور کے ساتھ انصاف رسانی پر اگر توجہ دیتے ہیں تو یوکرین جنگ کا بہتر انداز میںخاتمہ ہوسکتا ہے اور نہ صرف روس۔ یوکرین بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک کو بھی راحت مل سکتی ہے ۔