جو بائیڈن نے متعدد مرتبہ یہ انتباہ دیاہے کہ اب بھی جو امریکی یوکرین میں ہے وہ جلد ازجلد وہا ں سے نکل جائے
دی ہیگ۔ روس اور یوکرین کے درمیان میں جنگ کو روکنے کے لئے مقصد سے کی جانے والی سفارتی کوششوں کو اس وقت ایک معمولی جھٹکا لگا جب ماسکو نے ہزاروں دستے بیلاروس روانہ کئے تھے جنگی مشق میں مصروف دیکھائی دئے۔ روسی طیارہ شکن میزائل برف سے ڈھکی سڑکوں پر دوڑتے ہوئے دیکھائی دئے ہیں۔
درایں اثناء این اے ٹی او کے مزید دستے اتحادی مشرقی سرحدوں کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھائی دئے‘ وہیں برطانیہ نے 1000دستے مشرقی یوروپ میں اگر پڑوسی روس مداخلت کرتا ہے اور جنگیں شروع ہوجاتی ہیں توکسی بھی امکانی انسانی بحران کے جواب میں تیار رکھے ہیں۔
روس نے یوکرین کی سرحد کے قریب میں 100,000سے زائد دستوں کو تیار کیا ہے مگر انہوں نے کسی بھی قسم کی مداخلت کے منصوبے سے انکار کیاہے۔ اس نے مغرب سے اس بات کی تمانعت مانگی ہے کہ این اے ٹی او یوکرین اور دیگر سابق سویت ممالک کو مغربی فوجی اتحاد میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دے گا۔
جرمنی‘ فرانس‘ روس اور یوکرین کے خارجی پالیسی کے مشیر پچھلے ماہ جن کی پیرس میں ملاقات ہوئی ہے‘ ایک اوردور کی بات چیت برلن میں کررہے ہیں۔انہوں نے بتایا ہے کہ 2015کے ایک امن معاہدے کے نفاذ پر کوئی عمل آواری نہیں ہوئی ہے جس سے یوکرین کے دستوں اور مشرقی یوکرین میں روس کی حمایت والے علیحدگی پسندوں کے درمیان میں مکمل طور پر جنگ بندی ہوسکے۔
اسی دوران امریکی صدراپنے انتباہ والے بیان میں دہرایا کہ اب بھی جو امریکی یوکرین میں ہے وہ جلد ازجلد وہا ں سے نکل جائے۔ جمعرات کے روز این بی سی کو دئے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہاکہ کسی ایک دہشت گرد تنظیم سے نمٹنے جیسا یہ نہیں ہے۔
ہم دنیا کی عظیم افواج میں سے ایک کا مقابلہ کررہے ہیں۔ یہ بہت ہی الگ صورتحال ہے او رحالات تیزی کے ساتھ جنونی ہوتے جارہے ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیاکہ آیا امریکہ کسی بھی حالات میں امریکیوں کو بچانے کے لئے اپنے فوجی دستوں کو یوکرین روانہ کرے گا تو مذکورہ امریکی صدر نے کہاکہ نہیں ایسا نہیں۔
اگر امریکی او رروسی ایک دوسرے پر فائرینگ شروع کرتے ہیں تو یہ عالمی جنگ بن جائے گی۔ انہوں نے استدلال پیش کیاکہ کیا پوتن بے وقوف ہیں‘ وہ کافی چالاک ہیں اور اس حقیقت سے بھی واقف ہیں کہ اگر کچھ کرتے ہیں تو اس کے امریکی شہریوں پر منفی اثرات پڑیں گے۔
برطانوی وزیراعظم بورس جانسن اور این اے ٹی او سکریٹری جنرل جینس اسٹولٹیبرگ نے یوکرین کے قریب روس کی جاری فوجی تیاریوں کے خلاف متنبہ کیاہے جو حالیہ یادواشت میں یوروپی سکیورٹی کے خطرات میں سے ایک ہے۔
ترکی کے خارجی وزیر میولوت کاوسوگلونے کہاکہ یوکرین نے انقارہ کی جانب سے ثالثی کی پیشکش کو قبول کی ہے تاکہ روس کے ساتھ کشیدگی کو کم کیاجاسکے‘ وہیں ماسکو نے بھی اس فکر کو نظر انداز نہیں کیاہے۔