خالد نے دہلی ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں خصوصی چھٹی کی درخواست دائر کی ہے جس میں گذشتہ سال انہیں ضمانت دینے سے انکار کیاگیاتھا
نئی دہلی۔ سپریم کورٹ نے منگل کے روز ایک طالب علم جہد کار عمر خالد کی طرف سے دائر درخواست پر مرکز کو نوٹس جاری کیاجس میں سخت غیرقانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ(یواے پی اے)کی دفعات کوچیالنج کیاگیاتھا۔
جسٹس انیرودھ بوس او ربیلا ایم ترویدی پر مشتمل ایک بنچ نے مرکز ا ور دیگر سے خالد کی دائر کردہ درخواست پر جواب مانگا جو دہلی فسادات میں ”بڑے پیمانے پر سازش‘’کے معاملے میں مخالف دہشت گردی قانون کے تحت جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔
بنچ نے کہاکہ یو اے پی اے کی ائینی حیثیت کو چیالنج کرنے والی درخواستوں کی بیچ کی سماعت کری گی او رخالد کی ضمانت کی عرضی پر 22نومبر کو سماعت کریگی۔
خالد نے دہلی ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں خصوصی چھٹی کی درخواست دائر کی ہے جس میں گذشتہ سال انہیں ضمانت دینے سے انکار کیاگیاتھا۔
پچھلی سماعت میں سپریم کورٹ نے جے این یو کے سابق اسکالر کی طرف سے ائین کے ارٹیکل 32کے تحت دائر کردہ درخواست کویواے پی اے کو چیالنج کرنے والے دیگر موجودہ عرضیوں کے ساتھ ٹیگ کیاگیاتھا۔
خالد دہلی فسادات کی بڑی سازش کیس کے سلسلے تین سال سے زائد عرصہ سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ انہیں 2020میں دہلی میں پیش آنے والے فرقہ وارانہ فسادات کی بڑی سازش میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے لئے غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام)ایکٹ کے تحت گرفتار کیاگیاتھا۔
عمرخالد کیوں
سال2020میں دی وائرپر لکھے گئے ایک مضمون میں کہاگیاتھا کہ ”مسلمانوں کی قیادت میں کئے جانے والے مخالف سی اے اے قوانین میں خالد اوردیگر کا اٹھانے کامقصد مسلمانوں کی حمایت میں کئے جانے والے کسی بھی احتجاج کوروکنے یا دبانے کے ایک حربے کے طورپر دیکھا جارہا ہے۔
اپنی تقریر میں (جوائن لائن دستیاب)ہے دہلی پولیس نے جس کو خالد کے خلاف استعمال کیاہے‘ انہو ں نے کہاکہ”ہم تشدد کا جواب تشدد سے نہیں دیں گے‘ غصہ کاغصہ نہیں دیں گے‘
اگر کوئی نفرت پھیلاتا ہے تو ہم اس کاجواب محبت سے دیں گے‘ اگر وہ لاٹھیاں برسائیں گے تو ہم ترنگا لہرائیں گے‘ اگر وہ گولیاں برسائیں گے تو ہم ہاتھوں میں ائین تھامیں گے‘ اگر وہ ہمیں جیل میں بھریں گے تو ہم ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘گائیں گے اور خوشی سے جیل جائیں گے‘ مگر ہم ملک کو تباہ ہونے کے لئے نہیں چھوڑیں گے“
اسی وجہہ سے نریندر مودی کی زیرقیادت مرکزی حکومت خالد کو تیزی کے ساتھ پنپتی ہندوتوا زمین میں مسلمانوں کے لئے ”مزاحمت کی علامت“ کے طورپر خالد کودیکھ رہی ہے۔
خالد نے ایک نوجوان‘ بے خوف‘ تعلیمی یافتہ‘ سماجی اور باشعور مسلمانوں کی نمائندگی کی ہے‘ یہ وہ چیز ہے جس کے خلاف بھگوا پارٹی ناکام ہوتی دیکھائی دے رہی ہے۔