یو پی ‘ انتخابی عمل کا مذاق

   

آج ملک کی دو ریاستوں جھارکھنڈ اور مہاراشٹرا میں اسمبلی انتخابات کی رائے دہی ہوئی ۔ اس کے علاوہ کچھ اسمبلی اور پارلیمانی حلقوںکیلئے ضمنی انتخاب میں بھی ووٹ ڈالے گئے ۔ ان میں اترپردیش کی 9 اسمبلی نشستیں بھی شامل تھیں جن کیلئے ضمنی انتخاب ہوا ہے ۔ یہاں بھی انتخابی مہم چلائی گئی تھی اور رائے دہندوں پر اثر انداز ہونے کی ہر ممکن کوشش تمام امیدواروں کی جانب سے کی گئی ۔ انتخابی مہم کے دوران جو کچھ ہتھکنڈے اور حربے اختیار کرنے تھے سبھی نے کئے اور عوام کی تائید حاصل کرنے پر توجہ مرکوز کی گئی تھی ۔ اس دوران بھی انتخابی ضابطہ اخلاق اورقوانین کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ اصول و ضوابط کا پاس و لحاظ کئے بغیر کام کیا گیا اور قانون ساز ادارہ میںرسائی کیلئے بھی قانون کوتوڑا گیا تھا ۔ آج پولنگ کے دوران بھی ایسے بے شمار واقعات ہوئے ہیں جن کے نتیجہ میںانتخابی عمل کا مذاق بن کر رہ گیا ہے ۔ انتخابی ضابطہ کے مطابق جو قوانین ہیںان کے مطابق رائے دہی کا عمل پورا کیا جانا چاہئے ۔ عوام کو اپنے ووٹ کا استعمال کرنے کیلئے پورا محفوظ اور آزادانہ ماحول فراہم کیا جانا چاہئے ۔ ان پر کسی طرح کا دباؤ نہیں ڈالا جاسکتا اور نہ ہی انہیں کسی طرح کا لالچ دیا جاسکتا ہے ۔ تاہم اگر اترپردیش کی بات کی جائے تو وہاں طاقت کا استعمال کرتے ہوئے جمہوری عمل کوہی مذاق بنا کر رکھ دیا گیا ہے ۔ رائے دہی کا تناسب بڑھانے کیلئے ملک بھر میں کئی کوششیں کی جاتی ہیں۔ اثر دار شخصیتوں سے اپیل کروائی جاتی ہے اور عوام میں شعور بیدار کرنے کیلئے بھی اقدامات کئے جاتے ہیں۔ اس کا واحد مقصد یہی ہوتا ہے کہ عوام اپنے ووٹ کا استعمال کرنے آگے آئیں اور وہ کسی طرح کا ڈر و خوف محسوس نہ کریں۔ تاہم اترپردیش میں پولیس کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے رائے دہندوں کو ووٹ ڈالنے سے روکا گیا ہے ۔ کوئی وجہ بتائے بغیر پولنگ بوتھس کے اطراف لاٹھی چارچ کیا گیا اور پولیس نے کئی مقامات پر ووٹرس کو قطار سے ہٹا کر باہر کردیا ۔ خاص طور پر مسلم آبادی والے علاقوں میں اس طرح کا رویہ اختیار کرنے کی شکایات سامنے آئی ہیں۔ اگر ایسا ہوا ہے تو یہ ملک کے جمہوری عمل کی افادیت کو متاثر کرنے والا عمل ہے ۔
ہندوستان کی جمہوریت عوام کے اطراف گردش کرتی ہے ۔ عوام ہی جمہوریت میں سب کچھ ہوتے ہیں۔ ووٹرس ہی اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ کون اقتدار پر فائز ہوگا اور کسے اپوزیشن کی ذمہ داری دی جائے گی ۔ اگر عوام ہی کو ووٹ ڈالنے سے روکا جائے تو پھر جمہوری عمل کا مذاق ہی بن جائے گا ۔ اترپردیش میں حالانکہ محض 9 اسمبلی حلقوں میںضمنی انتخاب ہو رہا ہے اور اس کا حکومت کے استحکام پر بھی کوئی اثر ہونے والا نہیں ہے ۔ اس کے باوجود رائے دہندوں کو قطار سے نکال باہر کرنا اور انہیں ووٹ ڈالنے سے روکنا در اصل اترپردیش حکومت کے خوف کی عکاسی کرتا ہے ۔ لوک سبھا انتخابات میں جس طرح سے اترپردیش کے عوام نے بی جے پی کو مسترد کردیا تھا اس کے نتیجہ میمں چیف منسٹر کی سیاسی اہمیت خود ان کی اپنی پارٹی میں کم ہونے کے اشارے ملے ہیں۔ ایسے میں اگر ضمنی انتخاب میں بھی انڈیا اتحاد کو سبقت ملتی ہے تو پھر اس کے آئندہ اسمبلی انتخابات پر بھی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ پولیس وک استعمال کرتے ہوئے رائے دہندوںکو ان کے ووٹ کے استعمال سے روکنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ پولیس کا جہاں تک سوال ہے تو اس کو انتخابی عمل میں مداخلت کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ وہ صرف حفاظتی امور کی ذمہ دار ہوتی ہے ۔ ووٹرس کو روکنا یا پھر برقعہ پوش خواتین کے نقاب الٹ کر دیکھنا پولیس کا اختیار نہیں ہے ۔ یہ کام الیکشن کمیشن کے حکام کرسکتے ہیں ۔ پولیس نے اپنے اختیارات کا بے جا استعمال کیا ہے ۔
رائے دہندوں کو قطار سے نکال باہر کرتے ہوئے پولیس حکام اور عہدیداروں نے ایک طرح سے جمہوری عمل کی اہمیت اورافادیت کو گھٹانے کی کوشش کی ہے اور جو شکایات اور ویڈیوز منظر عام پر آئی ہیں ان کا جائزہ لیتے ہوئے ایسا کرنے والے عہدیداروں کے خلاف کارروائی کرنے کی ضرورت ہے ۔ کسی کو بھی اپنے سیاسی فائدہ کیلئے جمہوریت کا مذاق بنانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور اس معاملے میں الیکشن کمیشن کو اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے کارروائی کرنا ہوگا ۔ جمہوری عمل کو مذاق بننے سے بچانا ہے اور عوام کو جمہوری عمل کا حصہ دار بنانا ہے تو ایسے واقعات کا بہرصورت تدارک کیا جانا چاہئے ۔