یو پی حکومت کا فرمان

   

وہ دور تک جو سمندر دکھائی دیتا ہے
مجھے تو دھوپ کا لشکر دکھائی دیتا ہے
اترپردیش میں آدتیہ ناتھ کی حکومت لگاتار مسلم دشمنی پر مبنی اقدامات کرتی جا رہی ہے ۔ مسلمانوں کو ہر طرح سے نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ کافی پہلے سے اترپردیش ‘ مدھیہ پردیش اور ہریانہ جیسی ریاستوں کے انتہائی دور دراز مقامات پر مسلمانوں کا سماجی اور معاشی مقاطعہ کیا جاتا رہا ہے ۔ یہ ایک گاوں کی سطح پر ہندوتوا تنظیموں کی جانب سے کیا جاتا تھا تاہم بعد میں سرکاری مداخلت کے بعد حالات تبدیل بھی ہوا کرتے تھے ۔ تاہم اب اترپردیش میں باضابطہ اور سرکاری سطح پر مسلمانوں کے سماجی اور معاشی مقاطعہ کی کوششیں شروع ہو گئی ہیں۔ گذشتہ سال کانوڑ یاترا کے موقع پر یاترا کے راستوں میں ہوٹلس اور ریسٹورنٹس پر مالکین کے نام واضح طور پر لکھنے کی ہدایت دی گئی تھی ۔ عدالتی مداخلت کے بعد اس پر عمل ممکن نہیں ہوسکا اور آدتیہ ناتھ کی حکومت کچھ نہیں کرپائی ۔ تاہم اس بار ایک نیا طریقہ اختیار کیا گیا ہے اور یہ ہدایت جاری کردی گئی ہے کہ کانوڑ یاترا کے راستہ پر ہوٹلوں میں کیو آر کوڈ لگایا جائے ۔ اس کیوآر کوڈ میں بھی ایسی تفصیلات شامل ہونے کے اندیشے ہیں جن کے نتیجہ میں سماج میں نفرت اور دوری پیدا ہوگی اور مسلمانوں کے معاشی مقاطعہ یا بائیکاٹ ہوسکتا ہے ۔ اترپردیش حکومت نے اسی منصوبہ کے تحت یہ اقدامات شروع کئے ہیں اور آدتیہ ناتھ کی حکومت کے پاس اترپردیش جیسی ریاست کے حالات کو بہتر بنانے اور وہاں کے عوام کی زندگیوں کو سہل بنانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے بلکہ حکومت محض مسلم دشمنی اور نزاعات پر مشتمل مسائل کو ہوا دیتے ہوئے کام کر رہی ہے ۔ساری ریاست کو فرقہ پرستی کے دنگل میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔ ریاست کی معاشی حالت میں بہتری لانے یا پھر ریاست کو جرائم اور مافیا سے پاک کرنے میں حکومت پوری طرح ناکام ہوگئی ہے ۔ ریاست میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال انتہائی ابتر ہے ۔ نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق ریاست میں جرائم کی شرح بھی بہت زیادہ اور دوسری ریاستوں سے آگے ہے ۔ ان حالات پر توجہ دینے کیلئے آدتیہ ناتھ کی حکومت تیار نہیں ہے بلکہ وہ عوامک و فرقہ پرستی کا نشہ پلانے ہی میں زیادہ مصروف ہے ۔
اب اترپردیش اور اترکھنڈ حکومتوں کی جانب سے جو تازہ ہدایات جاری کی گئی ہیں ان میں یہ حکم شامل ہے کہ کانوڑ یاترا کے راستے پر ہوٹلوں ‘ دھابوں اور میوہ کی دوکانوں پر کیو آر کوڈ لگایا جائے ۔ اس کیوآر کوڈ میں دوکان مالک کا نام لازمی طور پر ہونا چاہئے ۔ اس کا مقصد یہی ہے کہ یہ پتہ چلے کہ دوکان کا مالک مسلمان ہے یا پھر ہندو ہے ۔ جس ہدایت پر گذشتہ سال عدالتی احکام کی وجہ سے عمل نہیں ہوپایا تھا اسی ہدایت کو کیو آر کوڈ کا نام دے کر دوبارہ لاگو کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں ۔ یہ در اصل فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑکانے اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی ہی کوشش ہے اور اس پر سماج کے کئی گوشوں کی جانب سے تنقیدیں بھی کی جا رہی ہیں۔ اترپردیش اور اترکھنڈ حکومتوں کی جانب سے جاری کردہ احکامات کو سپریم کورٹ میں پھر چیلنج کیا گیا ہے اور منگل کو عدالت میں سماعت ہونے والی ہے ۔ عدالتی کارروائی اور اس کے نتائج تو وقت آنے پر معلوم ہونگے تاہم یہ ضرور واضح ہوگیا ہے کہ بی جے پی کی حکومتیں قانون اور دستور کے مطابق کام کرنے کی بجائے فرقہ وارانہ ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کیلئے ہی کام کر رہی ہیں اور اسی مقصد سے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ پہلے ہی سے فرقہ پرستی کے چنگل میں پھنسی اترپردیش جیسی ریاست میں فرقہ وارانہ کشیدگی پر قابو پانے اور اسے کم کرنے کی بجائے اس کو ہوا دینے کی کوشش ہی کی جا رہی ہے ۔ حکومت کا یہ طرز عمل انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے اور ایسی کوششوں کو ناکام بنانے کی ضرورت ہے ۔
بی جے پی کا جہاں تک سوال ہے بی جے پی ہر معاملے میں دوہرے معیارات اختیار کرتے ہوئے خود ملک کے عوام کو بھی دھوکہ دے رہی ہے ۔ بی جے پی ان کمپنیوں سے بھی چندہ لیتی ہے جو بیف ایکسپورٹ کرتے ہیں۔ یہ کمپنیاں کئی جین اور ہندو افراد چلاتے ہیں۔ ان کمپنیوں کے نام مسلمانوں جیسے رکھے گئے ہیں۔ ان سے کروڑہا روپئے بی جے پی کو ملتے ہیں۔ اس پر بی جے پی کوئی کارروائی نہیں کرتی ۔ بی جے پی صرف دھوکہ اور فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنے کی سیاست کرتی ہے اور ایسی کوششوں کی نہ صرف ہر کسی کو مذمت کرنی چاہئے بلکہ انہیں ناکام بنانے کیلئے بھی جدوجہد کی جانی چاہئے ۔