عزمِ محکم کے جواں سال ارادے لے کر
زندگی جہدِ مسلسل پہ اتر آئی ہے
بی جے پی اور اس کی حکومتوں پر اکثرو بیشتر فرقہ پرستی کی سیاست کرنے اور مسلمانوں کے تعلق سے امتیازی سلوک روا رکھنے کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں۔ یہ حقیقت بھی ہوتے ہیں ۔ بی جے پی اور اس کی حکومتوں کی جانب سے ان الزامات کی تردید تو کی جاتی ہے لیکن اپنی روش میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جاتی ۔ دھیرے دھیرے اس کو مزید استحکام دیا جاتا ہے ۔ اترپردیش ایک ایسی ریاست ہے جہاں مذہبی جنون کو انتہاء کی حدوں تک پہونچا دیا گیا ہے ۔ وہاں عوام ایک دوسرے کے تعلق سے شکوک و شبہات کا شکار ہوچکے ہیں اور سماج میں دوریاں اور نفرتیں شدید ہوگئی ہیں۔ عوامی سطح پر اس صورتحال کو دور کرنے کی بجائے ایسا لگتا ہے کہ آدتیہ ناتھ کی حکومت اس معاملے میں خود سرکاری سرپرستی کرنے پر اتر آئی ہے ۔ اب اترپردیش کے مظفر نگر انتظامیہ کی جانب سے باضابطہ احکام جاری کئے گئے ہیں۔ ضلع میں کانوڑ یاترا شروع ہونے والی ہے ۔ اس کی تیاریوں کا آغاز کردیا گیا ہے ۔ یہ یاترا 240 کیلومیٹر کا فاصلہ طئے کرتی ہے ۔ اس یاترا کیلئے عہدیداروں کی جانب سے احکام جاری کئے گئے ہیں کہ راستے میں جتنی بھی ہوٹلیں اور رسٹورنٹس ہوں ان پر مالکین کے نام بہت واضح انداز میں درج کئے جائیں اور ان افراد کے نام بھی واضح کئے جائیںجو یہ ہوٹل یا ریسٹورنٹ چلاتے ہیں۔ دراصل اس یاترا کے راستے میں کانوڑ یاترا میں شریک افراد کے کھانے کیلئے ان ہوٹلوں وغیرہ پر توقف کرتے ہیں۔ کچھ فرقہ پرست جنونی ذہنیت کے حامل افراد چاہتے ہیں کہ اس راستے میں مسلمانوں کی ہوٹلوں کے کاروبار کو متاثر کیا جائے ۔ وہ اس تعلق سے وقفہ وقفہ سے اپنے منصوبوںکو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اب انتظامیہ کی جانب سے احکام جاری کئے گئے ہیں کہ ہوٹل مالکین اور ہوٹل چلانے والوں کے نام درج کئے جائیں۔ ایسا کسی قانون میںلازمی نہیںہے اور اس کا واحد مقصد یہی نظر آتا ہے کہ مسلمانوں کے کاروبار کو اب سرکاری سطح پر نشانہ بنایا جائیگا ۔ یہ بھید بھاؤ اور فرقہ پرستی کی سیاست ہے ۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے ایسے احکام جاری کئے جا رہے ہیں جن کے نتیجہ میں سماج میں مزید دوریاں پیدا ہوسکتی ہیں اور عوام میں اتحاد کی بجائے نفاق کی صورتحال مزید مستحکم ہوسکتی ہے ۔ اکثر و بیشتر دیکھا جارہا ہے کہ اترپردیش کے کچھ اضلاع اور دیہاتوں میں مسلمانوں کے معاشی مقاطہ کی صورتحال پیدا کی جا رہی ہے ۔ عوام میں کھلے عام پیغام دیا جا رہا ہے کہ مسلمان دوکانداروں سے کچھ خریداری نہ کی جائے ۔ اس طرح کے ویڈیوز سوشیل میڈیا پر بھی پوسٹ کئے جا رہے ہیں۔ اس کے باوجود ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی اور خاموشی اختیار کی جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے عناصر کے حوصلے بلند ہوتے رہے ہیں۔ اب آدتیہ ناتھ کی حکومت میں انتظامیہ کی جانب سے بھی یہی واضح اشارے دئے جا رہے ہیں کہ عوام کو کس ہوٹل پر رکنا چاہئے اور کہاں سے کھانا چاہئے ۔ اب تک یہ تعین کیا جا رہا تھا کہ عوام کو کیا کچھ کھانا چاہئے یا اور کیا نہیں کھانا چاہئے ۔ اب تو یہ بھی واضح کیا جا رہا ہے کہ کس ہوٹل سے کھانا چاہئے اور کس ہوٹل سے نہیں ۔ حالانکہ یہ کھلا اعلان نہیں ہے لیکن بالواسطہ طور پر یہی اشارے کئے جا رہے ہیں اور ان کے نتیجہ میں سماج میں اتحاد و اتفاق کی بجائے نراج اور اختلاف ہی کو ہوا ملے گی ۔ ریاستی حکومت کی جانب سے مسلمانوں سے امتیازی سلوک کی یہ ایک واضح مثال ہے ۔ فرقہ پرستانہ سیاست کو اترپردیش کے عوام کی جانب سے لوک سبھا انتخابات میں مسترد کئے جانے کے باوجود بی جے پی اس سے سبق لینے کو تیار نہیں ہے اور اپنے ہی ایجنڈہ کے مطابق کام کیا جا رہا ہے ۔
اس طرح کے احکام کی اجرائی کس قانون کے تحت کی گئی ہے اس کو واضح نہیں کیا گیا ہے اور احکام میں لا اینڈ آرڈر کا حوالہ دیا گیا ہے ۔ اس طرح کا حوالہ دیتے ہوئے یو پی پولیس کی نااہلی کا ڈھنڈورا پیٹا گیا ہے ۔ عوام بازار میں کسی سے بھی کوئی بھی شئے خریدسکتے ہیں اور خریدتے رہے ہیں۔ اس میں کسی سرکاری مداخلت یا رہنما خطوط کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ جو تجارتی قوانین ہیں ان کی پاسداری کرتے ہوئے ہر کوئی کاروبار کرسکتا ہے ۔ اس طرح کے احکام کی اجرائی فرقہ پرستانہ ذہنیت کے سرکاری سطح تک عروج کو ظاہر کرتی ہے جو قابل مذمت ہے ۔ اس سے دستبرداری اختیار کی جانی چاہئے ۔